اِک مسلسل شکایت

تمام تعریفیں اللہ تبارک و تعالٰی کے لیےے اور درود وسلام محمدﷺ کے لیے۔۔پچھلے دنوں ”آگہی“ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہواتھا جن قارئین نے پسند کیا ،ان کی ممنون ہوں ،ہمیں اپنی زندگیوں میں قدم قدم پر آگہی درکار ہے اور بہترین آگہی قرآن وسنت کے سوا کہاں مل سکتی ہے۔۔۔!

ہم سب آگہی کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن آگاہ ہو کر انجان رہنے میں اپنی عافیت یا آسانی پاتے ہیںدوسرے لفظوں میں ہم شکایت تو کرتے ہیں پر شکایت کا ازالہ نہیں کرتے۔۔بلکہ ہم ا ِک مسلسل شکایت میں جیتے چلے جا تے ہیں ہر انسان کو اپنی مختصرسی زندگی میں ہزاروں لوگوں سے ،سینکڑوں شکایات ہوتی ہیں اور ہم سب سے زیادہ شکایت کناں اللہ تبارک وتعالٰی سے ہوتے ہیں ہماری خود سے،سماج سے اور حکومت سے شکایات بجا ہوسکتی ہیں لیکن اللہ تعالٰی سے شکایت کا جواز کہیں نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تبارک وتعالٰی سے کسی اَمر کے ہونے یا نہ ہونے کی شکایت درحقیقت ایمان کی کمزوری ہوتی ہے بھروسے کی کمی اللہ کی” رضا “ سے انحراف کی راہیں ہموار کرتی ہے میں بھی اکژ کہتی ہوں کہ” یا الہٰی تو نے مجھے یہ نہیںدیا ،مجھے وہ نہیں ملاوغیرہ وغیرہ آپ بھی کسی کام کے اپنی مرضی کے برعکس ہونے پر یا کسی چیز کے نہ ملنے پر اللہ سے با رہاں شکایت کناں ہوئے ہونگے کہ میں نے یہ چاہا تھا،میں نے وہ مانگا تھا میری دُعا رائیگاں گئی۔اس طرح کی بہت سی شکایات کبھی زبان پر تو کبھی دل میں ہمیں اللہ سے ،اللہ تبارک وتعالٰی کی رضا سے دُور کئے رکھتی ہیں ہم نا سمجھی کی وجہ سے خود کونا شکری کے پا تال میں گِراتے چلے جا تے ہیں ہم اُن چیزوں کے با رے میں نہیں سوچتے جو ہمیں اللہ تبارک وتعالٰی نے دے رکھی ہوتی ہیں،ہم اُن لوگوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے پا س وہ بھی نہیں جو ہمیں حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنی محرومیاں بڑی بڑی نظر آتی ہیں لیکن جو ہمارے پاس اس ذاتِ پاک کی بڑی بڑی نعمتیں ہوتی ہیں وہ چھوٹی چھوٹی دِکھائی دیتی ہیں۔۔۔یہی وہ نظر ہے جو ہمیں اللہ تبارک وتعالٰی کی رضا پر شاکر ہونے نہیں دیتی،اللہ تبارک وتعالٰی بہترجانتا ہے کہ اس کے بندے کو کب ،کیا دینا اس کے حق میں بہتر ہے ،کب کس چیز میں اس کی بہتری نہیں۔۔۔یہ لازم نہیں کہ جو ہم اپنے لیے مانگ رہے ہوں وہ ہمارے حق میں اتنا ہی اچھا ہو ،جتنا ہماری ناقص بصارت کو نظر آرہا ہو،اور جس وقت پر وہ چیز طلب کی جا رہی ہووہ وقت مناسب ہو۔۔اللہ تبارک وتعالٰی کی قضائے منع(جب وہ کچھ نہ دے)اورقضائے عطا(جب وہ کچھ دے)میں جو حکمت پوشیدہ ہوتی ہے وہ ہم پا لیں تو ہماری زبانیں کبھی شکایت نہ کریں،ہمارے دل کبھی اس کی رحمت سے شاکی نہ ہوں اللہ کی رضا میں راضی ہونے کا رَمز جس نے پا لیا اس نے اللہ کو پا لیا۔۔۔اور اسی میں ہماری فلاح اور نجات ہے ورنہ ہماری شکایتوں کا بوجھ ہمیں ہی لے ڈوبتا ہے۔جیسے جیسے بندہ اللہ کی رضا پر راضی ہوتا ہے ویسے ویسے اس کی فکریں دم توڑتی جا تی ہیں اس کی مشکلات میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے جس طرح راحت اللہ کی نعمت ہے اسی طرح مصیبت بھی اللہ کا انعام ہے انعام اس لیے کہ ہر پریشانی اور مصیبت اللہ کی طرف سے بندے کے لیے موقع فر اہم کرتی ہے اللہ کی رضا میں راضی ہونے کا۔۔۔۔۔اور آزمائش میں ہمیشہ اللہ اپنے پیاروں کو ڈالتا ہے بندے پر ہے کہ وہ اس موقع کو کس طرح availکرتا ہے کس حد تک اس کی رضا کو اپنی رضا سمجھتا ہے جو اس کی رضا میں راضی ہونے کا کشف پا لیتا ہے وہ کبھی نااُمید نہیں ہوتا اور ناہی اس کی زبان اوردیگر اعضاء شکایت کر تے ہیں اللہ سے راضی ہونا ہی عین ایمان کی نشانی ہے بڑی سعادت کی بات ہے حضورﷺ کا ارشادِپاک ہے:”اس آدمی نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ تعالٰی کے رب ہونے پر راضی ہوا“یعنی ایمان کی تکمیل بھی رضا سے مشروط ہے ہماری زند گی وموت،رنج وراحت،آسانی مشکل ،امیری غریبی ،تنگدستی خوشحالی سب اللہ تبارک و تعالٰی کی قدرت کے مظہر ہیںان میں ہمارا ہی فائدہ ہے اگر ہم جانے تو۔۔۔۔۔۔مگرہم چاہ کر بھی راضی نہیں ہو پاتے ،یہی ہماری کم نصیبی اور بد بختی ہوتی ہے اسی وجہ سے ہماری شکایتں، مصیبتیں اور دُکھ کم نہیں ہوتے۔نبی پاکﷺکا ارشادِمبارک ہے :”جو آدمی اللہ تعالٰی پر اور اس کے فیصلوں پر راضی نہیں ہوتا وہ اپنے دل کو اسباب کی تلاش میں مشغول اور اپنے بدن کو مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے“

ہماری زندگیاں شکایت سے اُسی صورت نکلے گئیںجب ہم اللہ کی ہر طرح کی عطا پر راضی ہونے کا ہنر سیکھ لینگے اور اپنی زندگیوں سے ناشکر گزاری کو شکر گزاری اور رضا مندی سے بدل دیئنگے۔۔۔۔۔۔اور یقین رکھئے وہ کبھی کسی بندے کے ساتھ زیادتی نہیں کرتابلکہ ہم ہی اپنے دشمن ہیں اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ مانگتا ہے برائی جیسے مانگتا ہو بھلائی۔اس سے بڑھ کر ہماری کم عقلی کی اور کیا دلیل ہو گی کی ہم خود اپنے لیے برائی طلب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ سے بھلائی مانگ رہے ہیں بس زندگی میں جو حاصل ہے اس کا شکر ادا کیجئے اور جو حاصل نہیں ہے اس پراور زیادہ رضامندی کا مظاہرہ کیجئے کہ وہ اللہ عزوجل کی مرضی اور رضا سے حاصل نہیں ہے میں یہ نہیں کہتی کہ آپ سماج و حکومت کی زیادتی برداشت کرتے رہیں اور اپنے سماجی اور معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند نا کریں،تدارک کی سعی نا کریں میں تو چاہتی ہوں ہم رب سے اپنی محرومیوں کا گلہ نا کریں ،شکایت نا کریں ۔۔۔۔۔بہت سے لوگ اس کالم کو حقیقت سے فرار بھی کہیں گے لیکن مجھے کوئی یہ بتا دے کہہ ہماری سعی اللہ تبارک وتعالٰی کی مرضی و منشاءکے آگے کتنی پائیدار ہے؟؟کیا آج تک ہم کوشش کے باوجود بیماریوں سے نجات حاصل کر سکیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مہلک بیماریں ہمیں اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہیںدوا ہمارے مرض کو وقتی طور پر دبا دیتی ہے جڑ سے مِٹاتی نہیں۔۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی بخشی زندگی کی کسی بھی شکل میں شکایت کرنا اور ناخوش ہونا دراصل ایک روحانی بیماری ہے اور روح اس اسی صورت صحت یاب ہوگی جب ہم اللہ کی رضا میں راضی ہونا شروع کر دیں گے۔حضرت حارث محا سبیؓ فرماتے ہیں کہ”احکامِ الہٰی کے جا ری ہونے پر دل کے مطمئن رہنے کا نام رضا ہے۔“ رضا کے بارے میں ایک حکا یت بہت مشہور ہے کہ ایک درویش دریائے دجلہ میں گر پڑا جب کہ وہ تیرنا بھی نہیں جانتا تھا ،کنارے سے ایک آدمی نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ میں سب کو آگاہ کروں تا کہ وہ تمہیں با ہر نکال لیں؟درویش نے کہا”نہیں“پھر اس نے پوچھا کیا تم یہ چاہتے ہو کہ غرق ہو جاﺅ؟درویش نے کہا نہیں اس نے پوچھا پھر تم کیا چاہتے ہو؟درویش نے کہا میں وہی چاہتا ہوں جو حق تعالٰی میرے حق میں چاہتے ہیں۔۔۔۔۔کاش!ہمیں بھی ایسی رضا کی سعادت ملے۔۔

اللہ آ ُپ سب کا حامی و ناصر ہو!!
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 26485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.