رب کائنات نے دنیا کی تخلیق کے
بعد انسان کو زمین پر بھیجا۔اپنی آمد کے اوائل میں انسان ٹولیوں کی صورت
میں رہنے لگے۔ اس کے بعد اس نے اپنی ضروریات کے پیش نظر بستیوں کو آبادکرکے
ان میں زندگی بسر کرنی شروع کر دی۔ حضرت انسان ادھر نہ رکا اور اپنی
ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ مختلف شہروں کو آباد کرنے لگا۔تخلیق کا یہ
سلسلہ بڑھتا گیااوربلآ خر بات ممالک کے قیام تک آپہنچی۔ انسان مختلف بڑی
آبادیوں میں تقسیم ہو گیا۔وقت کا پہیہ چلتا رہا اور مختلف علاقوں میں مسلسل
ارتقائی عمل کے تحت الگ الگ تہذیبیں اور ثقافتیں ابھریں۔ تہذیب و ثقافت سے
مراد زبان ،لباس ، دین و مذہب، رسم و رواج وغیرہ ہیں۔ مختصراََ ہر ملک کے
باشندوں کا زندگی گزارنے کا الگ طریقہ ہوتا ہے جو تہذیب و ثقافت کہلاتا ہے۔
ہمارا پیارا پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔جہاں اللہ کے فضل و کرم سے
تقریبا تمام آبادی مسلمان ہے۔اس بات سے ظاہر ہے کہ یہاں کی تہذیب و تمدن کی
بنیاد اسلامی اصولوں پر قائم ہوگی۔جو کہ صد فیصد درست ہے۔وطن عزیز کو حاصل
ہی اسلام کے نام پر کیا گیاتھا جس سے اس خطے کے لوگوں کی اپنی روایات سے
محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔اور روایات سے محبت ہو بھی کیوں نہ
یہ ہمیں ہماری پہچان دیتی ہیں اور زندگی کو سلیقے سے گزارنے کا طرزیقہ
بتاتی ہیں۔مگر افسوس کہ آج کل ہماری تہذیب و ثقافت کو وہ اہمیت نہیں مل رہی
جس کی وہ حقدار ہے۔ اس زیادتی میں ہماری نوجوان نسل کا ایک مخصوص طبقہ پیش
پیش ہے ۔وہ کہتے ہیں نا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گنداکر دیتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کی مغربی تہذیب و ثقافت میں دلچسپی
بڑھتی جارہی ہے۔جس کی وجہ انٹرنیٹ، ٹیلی وژن اور دیگر مواصلاتی ذرائع کا
عام ہونا ہے۔اب مغربی زندگی کے بارے میں جاننے کے لیے کسی کو دور دراز کے
ممالک کا سفر نہیں کرنا پڑتا بلکہ ایک بٹن کے دبانے سے ہم مغربی زندگی کا
مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دوسری تہذیبوں کا جائزہ
لینا بالکل درست ہے اور اسلام میں بھی جاننے کی جستجو رکھنے کی تاکید کی
گئی ہے مگر اس کا قطعاَ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی رسو م و روایات کو پس
پشت ڈال کر دوسروں کی تہذیب و تمدن کی پیروی کریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمیں
مغربی زندگی کے اچھے پہلوئوں کو اپنانا چاہئیے جس سے ہماری زندگی بہت بہتر
ہوسکتی ہے۔اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔مثال کے طور پر ہمارے قائد اعظم
محمد علی جناح انگریزی ادب میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور خاص طور پر
انگریزی زبان کے شاعر ولیم شیکسپئر سے متاثر تھے۔ اور تو اور شاعر مشرق
علامہ اقبال نے توگورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کی تدریس بھی کی۔ان دو
عظیم ہستیوں کی مثالیں اس بات کے حق میں کافی ہیں کہ دوسری تہذیبوں کے مثبت
پہلوئوں کو اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے شرط یہ ہے یہ سب کچھ ہماری اپنی
روایات سے متصادم نہ ہوں۔
ہماری نوجوان نسل نے اس نظریے کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔ آج کل ان کی
مغربی طرز زندگی سے اپنائیت حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ اس حد کا آغاز وہاں سے
ہوتا ہے جہاں سے مغربی زندگی کے عناصر ہمار ی تہذیب و تمدن سے متصادم ہوتے
ہیں۔ دور حاضر کے نوجوانوں کے شب و روز گزارنے کا انداز روز بروز مغربی طرز
میں ڈھل رہا ہے۔سب سے زیادہ مغرب کی ثقاففتی یلغار نے ہماری نوجوان نسل کو
متاثر کیا ہے۔اگر نوجوانوں کی کسی محفل کو دیکھا جائے تو کم و بیش ہر کسی
کے کانوں میں ہیڈ فون لگے نظر آئیں گے جن کی مدد سے انگریزی کے راک گانے
سنے جا رہے ہونگے ۔ وہ بھی اس قدر بھونڈی آواز میں کہ اگر کوئی عام آدمی
انہیں سنے تو کانوں میں درد کی شکایت کرے گا۔ہر کسی کا اپنا اپنا شوق ہوتا
ہے مگرشوق کو تفریح کی حد تک ہی محدود رکھنا چاہئیے نہ کہ اس کو زندگی کا
حصہ بنا لیا جائے۔ان گانوں ،بے ہودہ ہی سہی،سے لطف اندوز ہونا کسی حد تک
قابل قبول ہے مگرآج کل کی نوجوان نسل ساری حدود پار کر رہی ہے۔ان کی محفلوں
میں آپ کے کانوں سے اس قسم کے جملے ضرور ٹکرائیں گے کہ ’یار کیا میں شکل سے
سنگر لگتا ہوں؟‘ دوست اس بات کی تائید کریں گے اور پھر کسی مشہور گائیک کی
شخصیت کی شان میں زمیں آسمان کے قلابے ملانے کے بعد اپنے دوست کو اس گائیک
سے تشبیہہ دینگے۔گویا پسندیدہ شخصیت کے انتخاب کے لیے گائیک ہی رہ گئے
ہیں،باقی جائیں بھاڑ میں۔
انگریزی فلمیں تفریح کا ایک اچھا ذریعہ ہیں مگر ہمارے نوجوان اس تفریح کو
کسی اور جانب ہی لے گئے ہیں۔ وہ فلمی ستاروں کی زندگی کی چکا چوند سے اس
قدر متاثر ہیں کہ ملک کے وزیر خارجہ کا نام یاد ہو نہ ہو مگر ہالی ووڈ کے
فلاں ستارے کے نوزائدہ بچے کا نام یاد ہونا فرض ہے۔اپنے ملک کے حالات پر
نظر نہ ہونے کے برابر ہوگی لیکن کسی فلم میں کسی ملک کی کسی حکومت کے زوال
کی وجوہات انگلیوں پر یاد ہونگیں۔
ہمارے مستقبل کے معمار جدت اور شخصی آزادی کے نام پر بیہودہ فیشن پر اتر
آتے ہیں۔ بات تو سخت ہے مگر سچ کڑوا ہوتا ہے۔بہترین مثال ان نوجوان لڑکیوں
کی ہے جو ملک کے بہترین تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ
سب لڑکیاں ایسی ہیں مگر ایک مخصوص طبقہ ایسا ہے جو کہ مغربی لباس کو مشرقی
لباس پر فوقیت دیتا ہے۔چلو مانا کہ یہ فیشن ہے مگر فیشن اس بے ڈھنگے طریقے
سے نہ ہو کہ یہ فیشن کی بجائے عریانی لگے۔یہ ہمارے معشرے کے ساتھ قطعاََ نا
انصافی ہے۔ لڑکے بھی اس زیادتی میں پیش پیش ہیں۔انہوں نے اپنے بالوں کو
زنانہ انداز دیاہوتا ہے ۔ ان کے بالوں میں پونیاں لگی نظر آتی ہیں۔کچھ نے
تو بالوں کا اسٹائل کچھ اس طرح بنا یا ہوتا ہے کہ گویا کسی نے ان میں پھاڑ
دیا ہو۔جب ان سے اس بے ہودگی کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ہم
اپنے آپ کو مغرب کے ہم پلہ لارہے ہیں۔ارے بھائی! اب ذرا ترقی میں بھی
مگرمغرب کے ہم پلہ آنے کی زحمت کر لی جائے۔
اس فیشن کا حصہ وہ تقاریب بھی ہیں جو کہ اکثر نجی تعلیمی اداروں میں سجتی
ہیں۔ٹھیک ہے تھوڑی بہت موسیقی ہونی چاہیے لیکن اگر سارا وقت لاؤڈ سپیکروں
سے گانوں کی آوازیں نکلیں تو یہ مہذب قوم کو بالکل زیب نہیں دیتا کہ تفریح
کو صرف اور صرف ناچ گانے تک ہی محدود رکھا جائے۔ چند ایک پارٹیوں میں تو
نوجوان حد سے ہی تجاوز کر جاتے ہیں اور لڑکے لڑکیاں مشترکہ ناچ کرتے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل میں ایک اور خامی دیکھنے میں آئی ہے کہ جو فرفر انگریزی
بولے وہ سب سے زیادہ قابل ہے۔اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ آتا ہو یا نہیں مگر منہ
ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔انگریزی بولنے
میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر اردو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے ۔یہ ہماری
قومی زبان اور شناخت ہے۔انگریزی تعلیم کا حصول ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر
ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے مگر اس کا استعمال موقع محل کی مناسبت سے
ہونا چاہیئے۔نوجوانوں کی جانب سے انگریزی کا بے تکا استعمال اپنے آپ کو حد
سے زیادہ مغرب پسند ظاہر کرنے کے لیئے کیا جاتا ہے۔یہ اپنی تہذب و تمدن سے
سراسر نا انصافی ہے۔عموماََ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان آدھا جملہ
انگریزی میں ادا کرتے ہیں تو آدھااردو میں۔یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس عمل سے
ان کی قابلیت کا اظہار ہوتاگاحالانکہ حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے۔یعنی اس
فعل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگلے کو نہ تو مکمل انگریزی آتی ہے اور نہ
ہی مکمل اردو۔یہ جملے ایسے ہوتے ہیں جیسے آدھا تیتر آدھا بٹیر۔
آج کے نوجوانوں نے ہی کل کے پاکستان کو سنبھالنا اور سنوارنا ہے۔اور یہ تب
ہی ممکن ہے جب نوجوان اپنی تہذیب و تمدن میں دلچسپی لینگے کیونکہ یہ ہی ان
کی شناخت ہیں۔ان خامیوں کو دور کرنے میںوالدین سب سے اہم کردار ادا کر سکتے
ہیں۔ان کواپنی اولاد کی پرورش اس طرز پر کرنی چاہئیے کہ ان میں اپنی روایات
کے لیے محبت ہودورحاظر میں میڈیا ایک موثر ہتھیار ہے۔ ٹیلی وژن اور ریڈیوپر
ایسے پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن سے ہماری ثقافت کو فروغ ملے اور نوجوانوں
کے دلوں میں اپنی تہذیب و تمدن کے لیے لگاؤ پیدا ہو۔تعلیمی اداروں میں
انتظامیہ کو چاہئیے کہ وہ ایسی پارٹیوں پر پابندی عائد کریں جن میں غیر
اخلاقی حرکتیں کی جاتیں ہیں۔ان کو چاہئیے کہ وہ نوجوان طلبہ کو صحت مند
تفریح کے حصول کے لیئے مواقع فراہم کریں اور اساتذہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ
نوجوانوں کواپنی روایات سے بخوبی آگاہ کریں۔
یقین جانئیے کہ اگر ہمارے نوجوانوں کاہماری تہذیب و ثقافت کی جانب جھکاؤ
بڑھ جائے اور یہ ساری خامیاں دور ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان
دنیا کا طاقتور ترین ملک ہو گا۔ انشا اللہ۔ |