میں پندرہ سے بیس خواجہ سرا ہیجڑوں کے جھرمٹ میں بیٹھا
اذان مغرب کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اپنی طرز کی انوکھی خاص افطاری کر
سکوں حاجی صاحب اِن خواجہ سراوں کے گرو نہایت ادب و احترا م اور خوشی سے
میرے ساتھ بیٹھے تھے وہ بار بار میرے گھٹنے کو چھوتے اور شکریہ ادا کر تے
کہ میں نے اُن کی افطاری قبول کی ۔زمینی دسترخواں بچھ چکا تھا نیکی شبنم
کاجل سمیرا انجمن شیدا وغیرہ مختلف ہیجڑے جو خود کو لڑکی سمجھتے ہیں کچن سے
مختلف چیزیں بنا بنا کر زمین پر بچھے دستر خواں پر سجا کر لہک کر حاجی صاحب
اور مجھے اشارہ کرتیں کہ یہ چیز میں خاص طور پر آپ کے لیے بنائی ہے میں
شکریہ اور تعریفی نظروں سے سر ہلا ہلا کر رسپانس دے رہا تھا اور خدا کی اِس
مختلف تخلیق کے انوکھے رنگوں کو دیکھ رہا تھا کہ رب ذولجلال کی کونسی حکمت
ہو گی جو اِن کو مردانہ جسم د ے کر روح زنانہ پھونک دی آپ اِن سے جتنی چاہے
بحث کر لیں کہ آپ مرد ہیں آپ کا جسم مردانہ ہے آپ کے چہرے پر داڑھی مونچھیں
ہیں آپ مکمل آپ کے جسمانی اعظا عورتوں والے نہیں مکمل مردانہ ہیں آپ کی
آواز بھی بھر پور مردانہ ہے آپ کیوں بضد ہیں کہ آپ عورت لڑکی ہیں لیکن آپ
جتنا مرضی اِن کو قائل کر لیں ہی نہیں مانیں گے بلکہ ناراض ہو کر اٹھ جائیں
گے آ پ سے دور ہو جائیں گے جبکہ اگر آپ اِن کو لڑکی کہہ کر مخاطب کر یں
توآسودہ مسکراہٹ کے ساتھ یہ آپ کا شکریہ ادا کریں گے اور بات چیت بھی سٹارٹ
کردیں گے میں اِن کی اِس فطری مجبوری یا حقیقت سے بخوبی واقف تھا بچپن سے
ہی میں اِن سے اسطرح واقف تھا کہ پرائمری کے بعد جب میں چھٹی کلاس میں آیا
تو میٹرک تک میرے ساتھ تین ایسے کلاس فیلو تھے جن کا تعلق اِن سے تھا یہ
اُس وقت بھی چست کپڑے پہنتے لڑکیوں کی طرح باتیں کرتے چلتے ایک میرے ساتھی
گاؤں سے تھا جب میں اُس سے دوستی ہوئی تو باقی دونوں سے بھی ہو گئی میں
ابھی شعوری پختگی میں داخل نہ ہوا تھا بعد میں شعوری بیداری کے بعد اِن کی
حقیقت کا ادراک ہوا اُس وقت جب میں اُن کے پاس بیٹھتا تو اِنہوں نے یہ شر ط
لگائی تھی کہ میں اُن کو لڑکیوں کے نام سے مخاطب کروں ورنہ دوستی ختم سب نے
اپنے مردانہ ناموں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں والے نام بھی رکھے ہوئے تھے لہذا
میں اُن کو لڑکیوں کے نام سے بلاتا باقی کلاس فیلو ان کا تنگ کرتے لیکن
میرا رویہ دوستانہ ہمدردی والا تھا باقی تو اِن سے نفرت کرتے لیکن مجھے
کبھی بھی بے زارگی یا نفرت محسوس نہ ہوئی بلکہ میڑک تک دوستانہ رویہ رہا
پھر ماسٹر ڈگری کے بعد جب میں کوہ مری میں نوکری کے لیے گیا پھر وہاں پر
راہ تصوف کا مسافر بنا پھر حق تعالی کے کرم خاص سے خدمت خلق کا سفر شروع
ہوا تو خواجہ سراؤں نے بھی میرے پاس آنا شروع کیا جب میں نے ہمدردانہ رویہ
بناتا تو باقی خواجہ سرا بھی آنا شروع ہو گئے کیونکہ میں مولویوں کی طرح
اُن کو دھتکارتا نہیں تھا کسی کا گرو ناراض تو کسی کاگریہ چیلا ناراض یہ
اِس ہجر کی آگ میں سلگتے جلتے مسیحائی کے لیے میرے پاس آتے تو میں ہمدردی
کر تا مجھے تو خدا کی بنائی ہر چیز سے پیار تھا اور اِسی جذبے کے تحت میں
اِن کو بھی جب تڑپتا روتا دیکھتا ہوں تو ہمدردی کرتا ہوں تاکہ اِن کی بے
قرار روح کو قرار آجائے اِن سے ہمدردی کی ایک وجہ بابا مست شاہ صاحب بھی
ہیں بچپن میں والد صاحب اور ماموں جان کے ساتھ میں جب بھی بابا مست کے
دربار پر انوار پر گیا تو وہاں پر بہت سارے خواجہ سراؤں کو دیکھتا اور پھر
ایک بار جب میں باباجی کے وصال کے بعد اِن کے عرس مبارک پر گیا تو عرس
مبارک پر میں نے ہزاروں خواجہ سراؤں کو دیکھا اتنی زیادہ تعداد میں اتنے
زیادہ خواجہ سراؤں کو پہلی بار دیکھا تو وہاں پر لوگوں نے بتایا باباجی
اپنی ظاہری حیات میں اِن سے بے پناہ پیار کرتے تھے جن کے گھروں میں یہ پیدا
ہوتے اور وہ معاشرے کے خوف سے اِن کو بچپن میں ہی باباجی کے پاس چھوڑ جاتے
پھر باباجی ایسے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالتے یہی وجہ ہے کہ پاکستان
بھر کے خواجہ سرا بابا مست کو اپنا باپ اور مرشد مانتے ہیں ویسے بھی اگر آپ
اولیاء اﷲ کی تاریخ زندگیوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو ہر درگاہ پر یہ لوگ
نظر آتے ہیں اصل میں درویشوں صوفیوں کا دامن بہت وسیع ہو تا ہے جس میں
معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ آکر پناہ لیتے ہیں کیونکہ اولیاء اﷲ ایسے
ٹھکرائے لوگوں کو اپنی اولاد کا پیار دیتے ہیں اِس سے یہ دیوانہ وار شمع
پروانے کی مثل اِن اولیاء اﷲ کے قدموں کو بوسے دیتے نظر آتے ہیں اِسی طرح
میں جب میں لاہور آکر خدمت خلق میں مصروف ہوا تو حاجی صاحب اپنی بیٹی کے
شادی کے سلسلے میں میرے پاس آنا شروع ہو ئے بچپن میں اِن کو یہ بچی لاوارث
ملی تھی جس کو حاجی صاحب نے ماں باپ بن کر پالا حاجی صاحب کی ساری زندگی
ناچ گانوں میں گزری لیکن جب اِس بچی کو ماں بن کر پالا تو باطن سے مامتا کا
نور پھوڑ پڑا نیکی کی طرف مائل ہو ئے چیلوں نے پیسے جوڑ کر حج کروایا تو
ناچ گانے سے توبہ کر کے خدا کی طرف دھیان لگا لیا جب بیٹی جوان ہوئی شادی
کا وقت آیا تو جو بھی حاجی صاحب کو دیکھتا بھاگ جاتا اِس طرح میرے پاس آئے
میں بہت محبت سے ملا جب میں نے بتایا کہ میں بچپن میں بابا مست جی کے سائے
میں گزرا ہے اور میں نے باباجی کے منہ کے نوالے کھائے ہیں تو حاجی صاحب ادب
سے کھڑے ہو گئے اور بولے پروفیسر صاحب آج سے میں آپ کا خادم مرید اب میری
زندگی آپ کے حوالے اِ س طرح میرا حاجی صاحب سے تعلق قائم ہو گیا حاجی صاحب
اپنی جوان بیٹی کی وجہ سے پریشان تھے میں نے ذکر اذکار بتائے حاجی صاحب
پانچ وقت کے نمازی تھے دل لگا کر تسبیح کرتے رہے آخر کار ایک نیک انسان مل
گیا تو بیٹی کی شادی ہو گئی اب حاجی صاحب میرے اور قریب ہو گئے وقتاً
فوقتاً میر ے پاس چکر لگاتے رہتے رمضان آیا تو ایک نیک دوست نے معاشرے کے
پسماندہ طبقے کے لیے راشن بھیجا تو میری نظر حاجی صاحب پر پڑی تو میں نے
کہا حاجی صاحب اور آپ کے چیلوں کو راشن دینے آنا ہے تو بہت خوش ہوئے ساتھ
شرط لگائی کہ میں افطاری اُن کے ساتھ کروں میں نے انکار کیا تو بولے آپ تو
درویش ہیں مولوی بن کر ہمیں دھتاکارو نہ پلیز تو میں حاجی صاحب اور اُن کی
بیٹیوں کے پاس آگیا میں آیا تو سب سے سر پر دوپٹے لے کر بیٹی بن کر سر پر
پیار لیا کیونکہ حاجی صاحب میرے دیوانے تھے یہ سب حاجی صاحب کی دیوانیاں
افطاری کا وقت شروع ہوا تو میں نے حاجی صاحب اور ان کی بیٹیوں کے ساتھ خوب
افطاری کی خوب مزا آیا حاجی صاحب بہت خوش تھے واپسی پر میں سوچھ رہا تھا کہ
کیا ہم معاشرے کے پسے ہوئے ایسے طبقے کا خیال کر تے ہیں کیا ان کے بارے میں
ہم سے پوچھا نہیں جائے گا یہ افطاری بہت خاص تھی ۔
|