چین کے شہر چھنگ دو میں رواں سال اٹھائیس جولائی سے آٹھ
اگست تک 31ویں ورلڈ یونیورسٹی گیمز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ چھنگ دو شہر
نے کھیلوں کے اس اہم عالمی ایونٹ کی میزبانی کا حق حاصل کرنے کے بعد چار
سال مسلسل تیاریاں کی ہیں اور بلآخر اب یہ کوششیں بالکل حتمی مرحلے میں
داخل ہو چکی ہیں۔کووڈ 19 کی پابندیوں کے خاتمے کے بعد چین میں منعقد ہونے
والے اس پہلے بڑے ٹورنامنٹ کے آغاز میں 100 دن سے بھی کم رہ گئے ہیں اور
شہر بھر میں تیاریوں کو" فنشنگ ٹچ" دیا جا رہا ہے۔
ورلڈ یونیورسٹی گیمز اس باعث بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں کہ یہ دنیا بھر
کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان یونیورسٹی طلباء اور کھیلوں کے
پیشہ ور افراد کو شفاف مقابلے میں شریک ہونے، بات چیت اور اپنے تجربات کا
اشتراک کرنے، ایک دوسرے کے بارے میں اپنی تفہیم کو گہرا کرنے اور دوستی کے
دیرپا تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک مساوی اور غیر جانبدار پلیٹ فارم فراہم
کرتی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عالمی گیمز ثقافتی تبادلے، باہمی ہم
آہنگی اور تعاون کو فروغ دینے،بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے
مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے اور سب کے لئے ایک بہتر دنیا کی تشکیل میں اہم
کردار ادا کریں گی۔
یہاں اس بات کا اعتراف بھی لازم ہے کہ شیڈول ورلڈ یونیورسٹی گیمز کے انعقاد
کی تیاریاں ہر گز آسان نہیں رہی ہیں کیونکہ کووڈ 19 کی وجہ سے ایونٹ کو دو
بار ملتوی کیا گیا ہے ، تاہم چین نے انٹرنیشنل یونیورسٹی اسپورٹس فیڈریشن
اور دنیا بھر میں یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں سے کیے گئے وعدوں کو پورا
کرنے کے لئے زبردست کوششیں کی ہیں اور ہمیشہ اس حوالے سے پرعزم رہا ہے۔
گیمز کی آرگنائزنگ کمیٹی نے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے اور
یونیورسٹی گیمز کی تیاریوں میں درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے افرادی
قوت، مالی وسائل اور مواد سمیت خاطر خواہ وسائل کی سرمایہ کاری میں کوئی
کسر نہیں چھوڑی ہے۔اس حوالے سےمنتظمین نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ٹکٹوں
کی فروخت جون سے شروع ہوگی کیونکہ تمام 49 نو تعمیر شدہ اور تزئین و آرائش
شدہ وینیوز مکمل ہوچکے ہیں اور مکمل طور پر آپریشنل ہیں۔ چھںگ دو یونیورسٹی
میں واقع ایتھلیٹس ولیج کو جامع خدمات اور سہولیات سے بھی لیس کیا گیا ہے
جو کسی بھی وقت مہمانوں کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہیں۔چین کی جنرل
ایڈمنسٹریشن آف اسپورٹس کے مطابق جون کے اوائل میں آزمائشی ایونٹس کا ایک
سلسلہ منعقد کیا جائے گا تاکہ حقیقی منظرنامے کی "ریہرسل" کی جاسکے اور اس
بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ایونٹ کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر جانچا
جائے۔اس دوران کھیلوں کے وینیوز، سازوسامان، اور کمانڈ و ڈسپیچ سسٹم کے
آپریشن کی جانچ پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی مقابلوں کے معیار،
ضروریات اور مقاصد کو برقرار رکھا جائے گا تاکہ ایتھلیٹس اور شائقین عالمی
پایے کے مقابلوں سے محظوظ ہو سکیں .تیاریوں کے اس سارے عمل میں انتہائی "معیاری"
کے پہلو کو ہمیشہ فوقیت دی گئی ہے تاکہ اس بات کی ضمانت دی جا سکے کہ ہر
چیز بلا تعطل اور مضبوط طور پر کام کرے۔انٹرنیشنل یونیورسٹی اسپورٹس
فیڈریشن کے قائم مقام صدر لیونز ایڈر نے بھی چین کی تیاریوں کو سراہتے ہوئے
کہا کہ انہیں چھنگ دو گیمز سے بہت زیادہ توقعات ہیں اور وہ پُراعتماد ہیں
کہ چھںگ دو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ لیونز ایڈر نے گزشتہ ماہ
چھنگ دو میں ایک اجلاس میں شرکت کے بعد کہا کہ "ذاتی طور پر مجھے یقین ہے
کہ چھنگ دو ایک عظیم گیمز کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔ آرگنائزنگ کمیٹی نے
دنیا بھر سے ہمارے تمام ایتھلیٹس کا خیرمقدم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔"
اس سے قبل دنیا دیکھ چکی ہے کہ چین نے کیسے بیجنگ سرمائی اولمپکس 2022 کا
زبردست انعقاد کیا جس کو ایک سال سے زائد ہو چکا ہے۔اس گزشتہ ایک سال کے
دوران بیجنگ سرمائی اولمپکس کی کامیابیوں اور مثبت اثرات کا جائزہ لیا جائے
تو کئی حیرت انگیز پہلو دیکھنے میں آتے ہیں۔ سرمائی اولمپکس کے تمام مقامات
آج بھی عوام اورمقامی کھلاڑیوں کے لیے دستیاب ہیں اور ان اولمپکس نے عالمی
سرمائی کھیلوں کی صنعت کو ایک نیا عروج دیا ہے۔تعجب انگیز پہلو یہ بھی ہے
کہ سرمائی اولمپکس کی وجہ سے تقریباً 346ملین چینی شہریوں نے سرمائی کھیلوں
میں شرکت کی، یوں موسم سرما میں کھیلوں نے چینی عوام کے لیے وسیع اور
پائیدار سماجی اور اقتصادی ثمرات لائے ہیں۔لہذا ،امید کی جا سکتی ہے کہ اب
چین ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں بھی نئی جہتوں اور جدت کو متعارف کروائے گا
اور نوجوانوں کو کھیلوں کی جانب راغب کرنے میں ایک اہم محرک ثابت ہو گا۔
|