بےحد سگھڑ اور نیک سیرت لڑکی کی عمر چالیس سال سے بھی
تجاوز کر چکی تھی عمر کے ساتھ ساتھ وزن بھی کافی بڑھ گیا تھا ۔ رشتے آنا تو
عرصہء دراز سے بند ہو چکے تھے ۔ یونہی چند برس اور گزرے تو اُسی کی بھابھی
اسے اپنے سب سے بڑے بھائی کے لئے بیاہ کر لے گئی جس نے پینتیس سال تک عرب
امارات میں محنت مزدوری کی ماں باپ کو گھر بنا کر دیا آدھا درجن چھوٹے
بھائی بہنوں کی شادیاں کیں اور پھر اس کے بعد بھی ان کی مالی کفالت جاری
رکھی حتیٰ کہ اس کے قویٰ جواب دے گئے ۔ صرف ایک آخری چھوٹا بھائی شادی والا
باقی رہ گیا تھا تو وہ مستقل طور پر وطن واپس آ گیا ۔
پھر ایک روز اس کی بہن اپنی نند اس کے لئے بیاہ لائی ۔ پینتالیس سالہ
تندرست و تو انا زوجہ اور پچپن برس کا نحیف و ناتواں تھکا ماندہ بزرگ ۔۔۔
مگر اللہ کی شان اس کی قدرت کہ سال بھر کے اندر ان کے ہاں چاند سا بیٹا
پیدا ہؤا ۔ زچہ اپنا چھلہ نہا لی تو گھر میں اس کے دیور کی شادی کا غلغلہ
شروع ہو گیا ۔ ساس نے پہلے ہی روز بڑی بہو کے تمغے کے نام پر گھر بھر کی
ذمہ داریوں کا طوق اس کے گلے میں پہنا دیا تھا جنہیں وہ اپنی نازک حالت میں
بھی نبھاتی رہی ۔ اور اب پھر ساس نے اسے یاد دلانا ضروری سمجھا کہ وہ گھر
کی بڑی بہو ہے اور تمام معاملات و انتظامات سنبھالنا اسی کی ذمہ داری ہے ۔
شادی کا مہمانوں سے بھرا گھر اور وہ گھن چکر بنی رہتی ۔ کچن میں پکانے
کھانے کے بعد صفائیاں دُھلائیاں ۔۔۔ بار بار ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈالتی اور
پھر جا کے بچے کو دودھ پلاتی ۔۔۔ بچے کو ٹھنڈ لگ گئی ۔ اسے نمونیا ہو گیا
اور چند ہی روز بعد وہ چل بسا ، جسے لوگ خدا کا ایک معجزہ قرار دیتے تھے ۔
لیکن کیا اس بچے کی موت کو قتل قرار نہیں دیا جائے گا جس نے ایسے والدین کے
بطن سے جنم لیا تھا جنہوں نے اپنی پوری جوانی اپنے گھر والوں کی خدمت کرتے
ہوئے اور ان کی خاطر اپنے خوابوں کی قربانیاں دیتے ہوئے گزاری تھی؟ وہ ذمہ
داریاں پوری کی تھیں جو ان کی تھیں ہی نہیں ۔ زندگی کی دوپہر ڈھل جانے کے
بعد انہیں ازدواجی رفاقت نصیب ہوئی تو کیا ان کا حق نہیں تھا کہ انہیں ان
کی زندگی جینے دیا جاتا خون چوسنے والی جونکوں سے ان کا پیچھا چھوٹ جاتا؟
مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا مشاہدہ بلکہ تجربہ یہی بتاتا ہے کہ متوسط و نیم
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوے فیصد پردیسی جو دیار غیر میں گدھوں کی
طرح اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں تو ان کا دماغ بھی گدھوں والا ہو جاتا ہے
عقل خبط ہو جاتی ہے صرف اپنی منکوحہ کی باری میں ۔ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے
بھی اندھے بن جاتے ہیں خود اپنے سگوں کی سیان پتیوں اور منافقتوں کو سمجھنے
کی صلاحیت سے یکسر محروم ہو جاتے ہیں ۔ بیوی کے تمام حقوق پورے کرنے کے بعد
بھی شریعت نے اس پر سسرال والوں کی خدمت کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے تو اسے
اس کے ایک بنیادی اور شرعی حق سے محروم کر کے اس کو اپنے پورے خاندان کی
لونڈی بنا دینے والے عقل سے بیدخل قربانی کے بکرے آخر کیا منہ لے کر خدا کے
سامنے جائیں گے؟ کہاں لکھا ہؤا ہے کہ آٹھ آٹھ بچے پیدا کر کے پھر سب سے بڑے
بیٹے کو ان کا باپ بنا دو؟ اس قبیل کے سب سرخیل یہی سمجھتے ہیں کہ ہم سے
صرف نماز اور روزے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ کسی جیتے جاگتے زندگی کی
امنگوں آرزوؤں اور فطری تقاضوں سے بھرپور محنتی و کماؤ انسان کی جوانی اجاڑ
دینا اس کی سادگی و سعادتمندی کا جی بھر کر ناجائز فائدہ اٹھانا اسے اس کے
حصے کی جائز خوشیوں سے محروم کر دینے کو حرام سمجھا ہی نہیں جاتا آخرت کی
پوچھ پکڑ کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ۔ اپنے پورے خاندان کو پالنے والا ان
سب کی زندگیاں سنوار دینے والا بدنصیب احمق اپنے نکاح میں آئی ہوئی عورت کو
سکھ سکون دینے سے قاصر ہوتا ہے ۔ اُسے اپنے خون کے رشتوں کی ریشہ دوانیوں
اور سازشوں سے تحفظ دینے میں ناکام رہتا ہے ۔ اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی
قربانیوں میں شریک نہ کرنے کی صورت میں اسے اپنی جنت کے کھو جانے کا ڈر
ہوتا ہے اور اسی کے حصول کی خاطر وہ بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم کا ایندھن
بنا دیتا ہے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو سارے طفیلیوں کا راشن پانی بند ہو
جائے جو اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ عیش کر رہے ہوتے ہیں مگر پردیسی بکرے کے
لئے چاہتے ہیں کہ وہ صرف کیش جھاڑنے کی مشین بنا رہے اور خود اس کی فیملی
اپنے جائز حق حصے کے لئے ترستی رہے ۔ |