دیانتداری

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص ٹیکسی میں سوار ہوا تو کیا ہوا؟ زبان نہ آنے کی وجہ سے زیادہ بات تو نہ کر سکا، بس اس انسٹیٹوٹ کا نام لیا جہاں اسے جانا تھا، ٹیکسی ڈرائیور سمجھ گیا، اس نے سر جھکایا اور مسافر کو دروازہ کھول کر بٹھایا۔

اس طرح بٹھانا ان کا کلچر ہے۔ سفر کا آغاز ہوا تو ٹیکسی ڈرائیور نے میٹر آن کیا، تھوڑی دیر کے بعد بند کر دیا اور پھر تھوڑی دیر بعد دوبارہ آن کر دیا، مسافر حیران تھا مگر زبان نہ آنے کی وجہ سے چپ رہا، جب انسٹیٹوٹ پہنچا تو استقبال کرنے والوں سے کہنے لگا، پہلے تو آپ اس ٹیکسی ڈرائیور سے یہ پوچھیں کہ اس نے دورانِ سفر کچھ دیر گاڑی کا میٹر کیوں بند رکھا؟ مسافر کی شکایت پر لوگوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا ’’راستے میں مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے جس جگہ سے مڑنا تھا، وہاں سے نہ مڑ سکا، اگلا یوٹرن کافی دور تھا، میری غلطی کے باعث دو ڈھائی کلومیٹر سفر اضافی کرنا پڑا، اس دوران میں نے گاڑی کا میٹر بند رکھا، جو مسافت میں نے اپنی غلطی سے بڑھائی اس کے پیسے میں مسافر سے نہیں لے سکتا‘‘۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ اس ڈرائیور نے نہ چلہ لگایا تھا، نہ وہ نماز پڑھتا تھا، نہ کلمہ، نہ اس کی داڑھی تھی، نہ جبہ، نہ ٹوپی، نہ پگڑی تھی مگر دیانتداری تھی، ہمارے پاس سب کچھ ہے مگر دیانتداری اور ایمانداری نہیں ہے۔ ہم مسلمان تو ضرور ہیں مگر ہمارے پاس اسلام نہیں ہے، اسلام پگڑی کا نام نہیں، اسلام کرتے، پاجامے اور داڑھی کا نام نہیں، اسلام سچ بولنے کا نام ہے، اسلام ایمانداری کا نام ہے، وعدہ پورا کرنے کا نام ہے، اسلام صحیح ناپنے اور پورا تولنے کا نام ہے، وقت کی پابندی کا نام ہے، اسلام دیانتداری کا نام ہے

میرے ایک عزیز نے ایک تاریخی واقعہ ارسال کیا ہے جو درج ذیل ہے ۔

ایک کتا جس کی وجہ سے 40 ہزار لوگوں

نے اسلام قبول کیا ..............................

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب درر کامنہ میں لکھتے ہیں کہ جب منگولوں نے پوری مسلم دنیا پر قبضہ کر لیا تو وہ دن بڑے دردناک دن تھے، ایسے عالم میں ایک منگول سردار عیسائی ہو گیا، اس خوشی میں ایک بہت بڑا جلسہ کیا گیا جس میں عیسائی پادری بھی شامل ہوئے.......... علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس جلسہ میں ایک بدبخت عیسائی پادری نے دریدہ دہنی کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو پاس بندھا ہوا ایک کتا جوش میں آگیا اور زور زور سے بھونکنے لگا.......... جلسہ میں موجود لوگوں نے پادری سے کہا کہ تو چونکہ مسلمانوں کے نبی کے خلاف بولا ہے اس لیے یہ کتا غیرت میں زور زور سے بول رہا ہے۔

پادری نے جواب دیا کہ نہیں نہیں! یہ ویسے ہی بڑا غیرت مند ہے، چونکہ میں نے ہاتھ سے اسکی طرف اشارہ کیا تو یہ سمجھا کہ مجھے مارنے لگا ہے، اس وجہ سے یہ غیرت میں آیا اور بھونکا.......... یہ کہنے کے بعد پادری نے اپنا بھاشن شروع کیا اور پھر وہی غلیظ حرکت کی اور دوبارہ حضور اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنا شروع کر دی.......... علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس بار کتا ایک دم رسہ توڑ کر پادری پر جھپٹا اور شیر کی طرح اس پر حملہ آور ہوا اور اپنے دانت پادری کی گردن میں گاڑھ دیے اور تب تک گاڑے رکھے جب تک پادری مر نہ گیا.......... علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کو دیکھ کر تقریبا چالیس ہزار منگولوں نے اسلام قبول کرلیا۔

عربی جاننے والے اس واقعہ کو حوالہ سمیت عربی میں بھی پڑھ سکتے ہیں:

قال الإمام: ابن حجر العسقلاني في كتابه (الدرر الكامنة)

كان النصارى ينشرون دعاتهم بين قبائل المغول طمعاً في تنصيرهم وقد مهد لهم الطاغية هولاكو سبيل الدعوة بسبب زوجته الصليبية ظفر خاتون، وذات مرة توجه جماعة من كبار النصارى لحضور حفل مغولي كبير عقد بسبب تنصر أحد أمراء المغول، فأخذ واحد من دعاة النصارى في شتم النبي صلى الله عليه وسلم، وكان هناك كلب صيد مربوط، فلما بدأ هذا الصليبي الحاقد في سب النبي صلى الله عليه وسلم زمجر الكلب وهاج ثم وثب على الصليبي وخمشه بشدة، فخلصوه منه بعد جهد ..

فقال بعض الحاضرين: هذا بكلامك في حق محمد عليه الصلاة والسلام،

فقال الصليبي: كلا بل هذا الكلب عزيز النفس رآني أشير بيدي فظن أني أريد ضربه، ثم عاد لسب النبي وأقذع في السب، عندها قطع الكلب رباطه ووثب على عنق الصليبيي وقلع زوره في الحال فمات الصليبي من فوره، فعندها أسلم نحو أربعين ألفاً من المغول.
الدرر الكامنة جزء 3 صفحة 202

اس کے جواب میں خاکسار نے اپنے تاثرات بھیجے ہیں شاید آپ کو ٹھیک لگیں ۔ملاحظہ فرمائیں ۔

السلام علیکم جناب اطہر میاں

یقینا" اللہ ہر چیز پر قادر ہے اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ایک معجزہ ہے

ہماری تاریخی کتابوں میں ناقابل اعتبار مواد بھرا پڑا ہے جس کو یوروپین مستشرقین اور آج کے اسلاموفوبس اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں

جب ک اسلام کا سر چشمہ قوت ہمیشہ کردار رہا ہے مسلمانوں کے اعلی اخلاقی اقدار ہی ہمارے لئے مشئلہ راہ ہونا چاہئے اور اس قسم کے واقعات کی ہی تشہیر و اشاعت کی جانی چاہیے

جادوئ واقعات تو ہندو مت کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں

ایک صحیح واقعہ جو ندوت العلماء سے شائع ہونے والے رسالے میں شائع ہوا تھا نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ کہ انگریز کا زنانہ تھا مظفر نگر کے پاس کسی مقام کو لیکر ہندو مسلمانوں کے بیچ تنازعہ چل رہا تھا ۔انگریز جج تھا معاملہ حل ہونے کی کوئ صورت نہیں تھی ۔

آخر میں انگریز جج نے ہندووں سے پوچھا کہ آپ لوگ کوئ ثالث مقرر کر لیں جس کی راے کو آخری راے مانتے ہوئے معاملہ حل کرنے پر متفق ہو سکیں ۔

ہندووں نے ایک مسلمان بزرگ کے نام پر اتفاق کیا ک وہ بزرگ جو فیصلہ دیں گے ہم اس کو مان لیں گے ۔ مسلمان بھی اس پر راضی ہو گئے

جج نے بزرگ کو بلوایا مگر انھوں نے آنے سے منع کر دیا کیونکہ انھوں نے انگریز کو نہ دیکھنے کی قسم کھا رکھی تھا۔ انگریز جج نے ان کے سامنے تجویز بھجوائی کہ آپ عدالت میں آئیں اور میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہو جائیں اس سے آپ کی قسم بھی برقرار رہیگی اور آپ کی ثالثی کے باعث یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا

اس پر وہ بزرگ راضی ہو گئے جج نے ان کے سامنے مقدمہ پیش کیا اور ان کی راے معلوم کی

ان بزرگ نے بتا یا کہ یہ جگہ ہندووں کی ہے اس طرح معاملہ فیصل ہو گیا اس واقعے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اسلام تے متاثر ہوئے اور اسلام کو قبول کیا

یہ ہے اسلام کا اصل سر چشمہ قوت

صبر خود داری دلیری حق پرستی اب کہاں
رکھ لیا اچھا سا اک نام اور مسلماں ہو گئے

اگر موقع ملے تو اس سلسلہ میں مولانا مودودی کی کتاب اسلام کا سرچشمہ قوت پڑھیں جو انھوں نے صرف 23 سال کی عمر میں لکھی تھی

مجھے نہیں پتہ کہ آپ کی مودودی صاحب کے بارے میں کیسی راے ہے۔ تھک گیا باقی پھر کبھی
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 317 Articles with 431887 views I am honest loyal.. View More