ایک اور افطاری

باجی رشیدہ کو یہ دکھ تھا کہ ماہِ رمضان میں چھٹیوں کی وجہ سے وہ مجھ سے نہیں مل پائے گی کیونکہ میں نے اعلان کر دیا تھا کہ ماہ رمضان میں عام ملاقاتیوں کے لیے اِس لیے دستیاب نہیں ہونگا کہ میں خوب جی بھر کر راتوں کو جاگنا چاہتا تھا رات بھر جاگنے کے بعد یہ ممکن نہ تھا کہ اگلے دل روزے کی حالت میں لوگوں سے مل سکون میرے اِس اعلان سے مجھے پتہ تھا بہت سارے لوگ دکھی اداس ہونگے جنہیں مجھ سے روزانہ ملنے کی عادت ہے انہی اداس لوگوں میں باجی رشیدہ بھی تھی جو پچھلے کئی ہفتوں سے لگاتا رمُجھ سے دم کرانے آرہی تھی لیکن جب میں نے اُسے کہا کہ میں انشاء اﷲ رمضان میں کسی دن آپ کی طرف سے گزرا تو آپ کے گھر آپ کو سلام اور دم کرتا جاؤں گا تو رشیدہ باجی کا خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا پہلے تو اُس کو بلکل بھی یقین نہیں آیا کہ میں اُس کے گھر آؤں گا کیونکہ میرے بارے میں یہ مشہور ہے کہ میں لوگوں کے گھروں میں عام پیروں کی طرح نذر نیاز لینے نہیں جاتا لیکن یہاں تو معاملہ بر عکس تھا باجی رشیدہ جو بار بار ایک بازو سے محروم ہونے کے باوجود کہتی تھی کہ مجھے دنیاوی کوئی پریشانی مسئلہ نہیں بلکہ میں رب تعالیٰ پر بہت خوش ہوں وہ باطنی طور پر بہت مطمئن خوشحال تھیں مجھے اِس کی کھوج تھی کہ مادیت پرستی کے اِس دور میں جب ارب پتی بھی سکوں قلب سے محروم ہیں یہ عام سی عورت اتنی مطمئن پر سکون کیسے تھی دوسرا وہ ایک بازو سے محروم تھی اُس کی ازدواجی گھریلوزندگی کسی ہے بچوں کو خاوند گھر کو کس طرح سنبھالتی ہے موجودہ اضطرابی دور میں اطمینان قلب کی کس دولت سے سرفراز ہے اِس لیے میں نے پکا وعدہ کیا اور ایڈریس نمبر وغیرہ لے لیا تو بہت خوش خوش واپس چلی گئی اُس کی خواہش کے ساتھ میری بھی خواہش تھی اُس سادہ عورت سے ضرور جا کر اُس کے گھرپر ملوں کیونکہ میرے پاس آنے والوں میں اکثریت بے چین بے قرار شکوے شکایت رونے پیٹنے حالات کا شکوہ کرتے لوگوں کی ہوتی ہے لیکن جب کوئی غریب سفید پوش آکر اﷲ کا شکریہ کر تا نظر آئے کہ اﷲ کے خاص کرم ہیں تو ایسے شاکر لوگ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں کہ یہ رب کے دئیے ہوئے پر ‘رب کی تقسیم پر خوش ہیں باجی رشیدہ بھی ایسا ہی کردار میری زندگی میں آیا تھا جس کے بارے میں میں جاننا چاہتا تھا کونسی نیکی وظیفہ عمل اِس نے کیا ہے کہ تذکیہ نفس کی بھٹی سے گزرے بغیر تزکیے کی پل صراط سے گزرے بغیر ہی مطمئن خوشحال ہے باطنی طمانیت سے لبریز ہے رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو پہلے روزے سے ہی باجی کے فون آنے شروع ہو گئے کہ سرکار آپ کب ہمارے غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں تو چند دن ٹالنے کے بعد میں نے کہا فلاں دن میں خود آؤں گا لہذا مقررہ دن میں باجی رشیدہ کے گھر بسکٹ جوسز فروٹ وغیرہ لے کر پہنچ گیا تاکہ اُس کے بجٹ پر بوجھ نہ بن سکوں باجی آنکھیں بچھائیں میری منتظر تھیں میں شہر کے پسماندہ چھوٹے سے پانچ مرلے کے گھر میں داخل ہوا تو حیران کن منظر نے میرا استقبال کیا کہ گھر پرانا بوسیدہ ہونے کے باوجود حد سے زیادہ صاف ستھرا تھا آپ جب کسی پرانے میلے گندگی والے گھر میں داخل ہوں تو عجیب سی بے زارگی والی بد بو آپ کا استقبال کر تی ہے اور آپ کسی صاف ستھرے گھر میں داخل ہوں تو خوشگوار ہوا کے جھونکے آپ کا استقبال کر تے ہیں یہاں بھی جب میں داخل ہوا صاف ستھرے گھر نے میرا استقبال کیا جس کے صحن میں باجی رشیدہ گلاب کے پھولوں کے ہار لیے میرے استقبال کو کھڑی تھی پیر پرست عورت تھی اِس لیے اپنی خوشی کا اظہار پھولوں کے ہاروں سے کر رہی تھی صحن میں ہی چارپائیاں پڑی تھیں جن پر کالے اور سفید ڈبیوں والے سوتی کھیس پڑے تھے ساتھ میں تازروی کے پھولے ہوئے سفید تکیے جس پر گلابی رنگ کی کروشیے کی کڑھائی ہوئی تھی باجی کے دو جوان بچے ایک بیٹا اور بیٹی جو دونوں یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے دونوں بچوں کے چہرے بھی خوشی سے چمک رہے تھے ایک اور خاتون جو بوڑھی ہو چکی تھی کا تعارف کرا یا گیا جو باجی رشیدہ کی بڑی بہن تھی اُس کے بچے تھے نہیں خاوند فوت ہوا تو باجی رشیدہ کے پاس مستقل آگئیں اب وہ بھی اِس چھوٹے سے خاندان کا حصہ تھی باجی رشیدہ اور بچے چھوٹے سے کچن میں افطاری کی تیار ی میں تھے بڑی باجی میرے پاس بیٹھی باتیں کر رہی تھیں مجھے اپنے سوالوں کے جواب کا موقع مل گیا لہذا میں پاس بیٹھی بڑی بہن سے باجی رشیدہ کے کردار زندگی کے بارے میں سوالات کر کے اپنا مطلوبہ ڈیٹا حاصل کر لیا باجی رشیدہ کی زندگی الم ناک دکھوں سے بھر پور تھی ابھی باجی رشیدہ پانچ سال کی تھی کہ والدین کے ساتھ بس حادثے میں شدید زخمی ہو گئی والدین حادثے کا شکار ہو کر انتقال کر گئے اور زخمی رشیدہ کو اِس بے رحم دنیا کے حوالے کر گئے باجی رشیدہ اپنے ماموں کے گھر مشکل حالات میں پروان چڑھی جوان ہوئی تو معذور سمجھ کر لوگوں نے رشتہ لینے سے انکار کر دیا حالانکہ باجی رشیدہ معذوری کے باوجود کام کاج میں ماہر ہر کام خوش اسلوبی سے شاندار طریقے سے کر تی محسوس ہی نہ ہو نے دیتی کہ اِس کا ایک بازو نہیں ہے ممانی اِس سے جان چھڑانا چاہتی تھی آخر ایک چھوٹے سے زمیندار کے گونگے بیٹے کا رشتہ آیا تو ممانی نے فورا قبول کر لیا لہذا معصوم رشدیہ کی شادی گونگے لڑکے سے کر دی گئی رشیدہ نے اِس کو خدا کا حکم سمجھ کر قبول کیا یہاں پر اُس کی پہلی بار ایک نیک بزرگ سے ملاقات ہوئی اصل میں جب رشیدہ کا خاوند بچپن میں نہیں بولتا تھا تو والدین اُس کو بچپن میں سند ھ میں اپنے مرشد خانے مرشد کے پاس چھوڑ آئے تا کہ بزرگوں کی کرامت روحانی فیض اورتوجہ سے بچے کا گونگا پن ختم ہو جائے وہیں پر وہ جوان ہوا تو پیرصاحب نے گونگے کو اپنا بیٹا بنا کر رکھا شادی پر دونوں کو پاس بیٹھا کر رشیدہ باجی کو بیعت کی بیٹی بنا یا اور کہا دنیا میں تمہارا کوئی نہیں ہے خدا اور میں تمہارے ساتھ ہیں اﷲ سے دوستی لگا لو پھر اپنے سلسلے کے ذکر اذکار بتائے کامیاب زندگی کے گُر بتائے اِس طرح رشیدہ باجی راہ سلوک کی مسافر بنیں مرشد نے بیٹی سے اور بیٹی نے مرشد سے خوب عشق کیا اﷲ نے ایک بیٹا اور بیٹی عطا کی رشیدہ باجی نے گھر اور بچوں کو خوب سنبھالا میاں کی خوب خدمت کی جہاں پریشانی ہوتی مرشد سے راہنمائی لیتی عبادت اور ذکر سے سکون قلب عطا ہوا میاں کی تھوڑی سی زمین تھی جس سے گھر کا گزارہ اچھا ہو جاتا تھا دوسال پہلے خاوند انتقال کر گیا اب رشیدہ ہی اکیلی بچوں کی رکھوالی تھی رشیدہ باجی کی بڑی بہن کے بقول رشیدہ ایک ولیہ عورت ہے جورب کے بہت قریب ہے اِسی دوران افطاری کا وقت ہو گیا ہر چیز بہت سادی اور مزیدار تھی میں نے جی بھر کر افطاری کی واپسی سے پہلے دونوں بچوں کو پاس بٹھا یا اور پوچھا آپ کی ماں کا مقام آپ کی نظر میں کیا ہے تودونوں نے ماں کو جپھی ڈال کر کہا ہم نے خدا کو نہیں دیکھا لیکن ہمیں ماں کے روپ میں خدا مل گیا ہے اگر سجدہ جائز ہو تا تو ہم ماں کو سجدہ کر تے ہم خوش قسمت کہ اِن کی اولاد ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 738663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.