چند آئمہ کرام اور حافظ قرآن اور دینی مدرسوں کے اساتذہ
کرام نے مشترکہ طور پر ایک خط کے ذریعے مجھے اپنے معاشی مسائل سے اس لیے
آگاہ کیا ہے کہ میں اس خط کو اپنے کالم کاحصہ بناکر قومی سطح پر ایسی آواز
اٹھاؤں کہ ان کے معاشی مسائل کا کوئی حل نکالا جاسکے۔ چنانچہ مفاد عامہ کے
تحت میں یہ خط من و عن اپنے کالم کا حصہ بنارہا ہوں۔:مختلف اوقات میں خاص
کر رمضان المبارک اور عید کے موقع پر آئمہ مساجد ، تراویح پڑھانے
والیحفّاظِ کرام ، مؤذّنین ، خادمین مسجد وغیرہ کی خدمت و معاونت کے لیے
کئی جگہ سے آوازیں بلند ہوتی دِکھائی دیتی ہیں۔مگر افسوس کہ۔۔۔۔ابتداء سے
انتہاء تک جس شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سب کچھ ہوتا ہے وہ انتہائی
شرمناک ہے۔سب سے پہلے تو وہ حضرات جو خیرخواہ بن کر آئمہ و حفاظ کرام کے
لیے آواز اٹھاتے ہیں، وہی ان کو غریب مسکین، فقیر اور ایک ملازم پیشہ کے
طور پر متعارف کرواتے ہیں۔کہ۔۔۔جی یہ امام بھی سفید پوش اور غریب ہوتے ہیں
ان کے بھی بال بچے ہیں ان کی بھی ضروریات ہیں لہذا دیگر فقراء و غرباء اور
مستحقین کی طرح ان کا بھی خیال کریں۔ الفاظ اگرچہ کچھ اور ہوں معنی و مفہوم
یہی بنتا ہے جوہم نے عرض کیا ہے۔ البتہ بعض احباب بہت اچھے اور بہتر طریقے
سے اس انداز میں ائمہ کرام کی خدمت کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں جس سے کسی امام
یا عالم کی تحقیر نہیں ہوتی۔۔۔تنخواہ بڑھانے کی بات بھی کریں گے تویہ ایک
مزدور اور نوکر کی یومیہ اجرت پر قیاس کریں گے۔ڈاکٹر یا کسی افسر کے برابر
امام صاحب کی تنخواہ مقرر کرنے کی بات ان کے نزدیک گویا امامت کے منصب سے
بہت اونچی بات ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی آئمہ و حفاظ کی خدمت کے نام سے تذلیل
کے ایک سے بڑھ کر ایک انداز موجود ہیں۔
ایک پوسٹ میں تو یہاں تک دیکھا گیا کہ امام کی تنخواہ دس ہزار ہے اور لوگ
ادھر ادھر غریب تلاش کر رہے ہیں۔ اﷲ کے بندو ! امام و مؤذن یا حفاظ کی خدمت
کروانے کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ آپ ان کو ایک غریب ، مفلوک الحال ، مزدور ،
یا بھکاری سے بھی نیچے اتار کر لوگوں کو ان کی مدد پر آمادہ کریں۔۔۔۔۔ایک
پوسٹ یہ بھی کافی عرصہ گردش میں رہی کہ امام اور مصلّی سنانے والوں کو 27
ویں رمضان المبارک کو سوٹ دیتے ہوئے اس درزی کا پتہ بھی بتا دیا کریں جو
عید سے پہلے ان کو سلائی بھی کر دیا کرے۔ یہ انداز بھی کسی طرح درست نہیں۔
بات اگر مسجد انتظامیہ (جن میں اکثر نا اہل لوگ شامل ہوتے ہیں)کی کریں تو
ان کا انداز بڑا عجیب و غریب اور انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔نمازی حضرات کے
سامنے بار بار اعلان ،اس کے بعد۔جھولی پھیلا کر دس دس، بیس بیس یا زیادہ سے
زیادہ سو ، پچاس کے ذریعے چندہ جمع کرنا۔کیا حال کر دیا ہے ہم نے اﷲ رب
العالمین کا پاک کلام سنانے والے امام حضرات اور حفاظ قرآن کا۔ جن کی
تنخواہ اور عیدی کے لئے مسجد میں نمازیوں کے آگے جھولی پھرائی جاتی ہے۔ کیا
منہ دکھائیں گے ہم اﷲ رب العالمین کو؟ ۔عشاء و تراویح میں نمازی کم ہونے کی
وجہ سے دیگر نمازوں میں بالخصوص نمازِ فجر میں اس عمل کو دہرانا۔ نمازیوں
کے سامنے آئمہ و حفاظ کی تذلیل میں کوئی کمی رہ جائے تو اہل محلہ اور بازار
سے یہ سعادت حاصل کرنا۔عید کے دن ڈبل جھولی ایک مسجد کے لیے دوسری امام کے
لیے اور اس دوران شرم سے سر جھکائے امام صاحب بھی منبر پر جلوہ افروز ہوں
۔اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون ۔اکثر جگہ یہ جھولی
لگانے والے بھی مؤذن اور خادم مسجد بلکہ امام و نائب امام تک بھی یہ ڈیوٹی
سر انجام دیتے ہیں۔ اور مسجد کی انتظامیہ کے لوگ نوابوں کی طرح اکٹھے بیٹھ
کر اکٹھی ہونے والی رقم کی خفیہ گنتی کرتے ہیں اور پھر اس کے قابض و مالک
بن کر جہاں چاہیں اور جیسے چاہیں خرچ کرتے ہیں۔ایک مسجد میں سالہا سال سے
ایسا بھی ہوتارہا ہے کہ نمازِ فجر کے بعد روزانہ صدرِ محترم کے حکم سے
مؤذن/نائب امام مسجد کے لیے جھولی لگاتے تھے، جو نمازیوں پر بہت گران گزرتا
تھا اور جیب میں پیسے نہ ہونے کی صورت میں کئی نمازی خفت محسوس کرتے
تھے۔جبکہ مسجد کے دروازے پر چار فٹ لمبا چوڑا چندہ بکس باقاعدہ نصب ہے جس
میں ہر کسی کو با عزت اور رازداری کے ساتھ اپنا حصہ ڈالنے کی سہولت میسر
ہے۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے کسی خدا کے بندے نے کہہ کہلوا کر اور لڑجھگڑ کا یہ
سلسلہ ختم کروایا کہ جب مسجد کے دروازے پر اتنا بڑا بکس موجود ہے اور ہر
کسی کو اس میں اپنا عطیہ وغیرہ ڈالنے کی سہولت بھی میسر ہے تو پھر مؤذن یا
نائب امام کے ذریعے نمازیوں کے آگے جھولی لگا نا کیوں ضروری کردیاگیا ہے۔؟
اب اس تمام تر صورتِ حال کے پیشِ نظر ہونا کیا چاہیے؟سب سے پہلے تو امام ،
مؤذن ، تراویح کے لیے حافظِ قرآن یا مسجد کی صفائی ستھرائی کے لیے خادم
وغیرہ ان سب کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے۔جس سے جو کام لینا ہے اس کام کی
پوری پوری صلاحیت و قابلیت اس میں موجود ہو۔ کیا ہی بہتر ہو کسی مستند
ادارے یا تنظیم سے رابطہ کر کے باقاعدہ طور پر صاحب علم و فضل اور متقی
امام و خطیب کا تقرر کیا جائے۔جس مسجد میں جتنے افراد کی ضرورت ہو اتنے ہی
افراد کا تقرر کیا جائے۔ ایک ہی بندے کو تمام تر معاملات کی ذمہ داری سونپ
دینا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ہمارے خیال میں تمام معاملات کو ہینڈل کرنے کے
لیے کم از کم تین افراد ایک مسجد کے لیے درکار ہوں گے۔نمبر ایک امام و خطیب
، نمبر دو نائب امام و مؤذن اور نمبر تین مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی
ستھرائی کے لیے خادم۔ہر کسی کے منصب اور کام کے مطابق ایک اچھی اور بہترین
ماہانہ تنخواہ کا اس طرح انتظام ہو کہ دیگر ذرائع آمدن اختیار کرنے سے بے
نیاز ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنے منصب اور ذمہ داری سے وفا کریں۔تراویح
پڑھانے کے لیے حافظ قرآن کا تقرر کرنے سے پہلے ان کے معاوضے کا تعین کیا
جائے ۔ امام صاحب ہی اگر حافظ قرآن ہوں اور تراویح پڑھاسکتے ہوں تو جتنی
تنخواہ وہ امام کی حیثیت سے لیتے ہیں،اتنی ہی رقم بطور معاوضہ تنخواہ کے
علاوہ انہیں دی جائے۔ چھوٹی بڑی عید پر جیسے سرکاری اداروں کے ملازمین کو
زائد اخراجات پورے کرنے کے لیے بونس ملتے ہیں ،اسی طرح امام مسجد،نائب امام
اور مسجد کے خدمت گار کو بھی دونوں عیدوں کے موقع پر ایک ایک مکمل تنخواہ
بونس کی حیثیت سے دی جائے.......حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں خود جس مسجد
میں نماز اورتراویح پڑھتا ہوں، وہاں کے امام قاری محمد اقبال صاحب ہیں جو
بہترین خطیب ،حافظ قرآ ن بھی ہیں۔انہوں نے ماہ رمضان کے تیس دنوں میں پانچ
نمازیں اور تراویح بھی بہترین پڑھائیں ۔جب 27رمضان ختم قرآن کی رات آئی تو
مسجد کے مالک ،تشریف لائے اور لفافے میں پانچ ہزار کا نوٹ ڈال کر کپڑوں کا
ایک سوٹ دے کراحسان عظیم کرگئے۔یہ بات بطور مثال پیش کی جارہی ہے۔ اکثر
جگہوں پر ایسا ہی ہوتا ہے۔جو نہیں ہونا چاہیئے۔اگر ہم خود اپنے امام اور
حافظ قرآن کی قدر نہیں کرینگے تو کیا کسی اور مذہب کے لوگ یہ فریضہ انجام
دیں گے۔جس طرح ہم اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں اسی
طرح امام مسجد اور حفاظ کرام کی ضرورتوں کا بھی ہمیں خیال رکھنا ہوگا ۔کاش
ہم سب ایسا ہی سوچیں...... |