اظہر صاحب کا آبائی تعلق صوبہ
خیبر پختونخواہ سے تھا ۔ سرکاری ملازمت کے دوران ان کاتبادلہ کبھی اس شہر
سے کبھی اُس شہر ہوتارہا ۔ کراچی پوسٹنگ کے دوران ریٹائرمنٹ لے کر شہر
قائدمیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ اظہر صاحب کی مختصراًفیملی ایک اُن کی
اہلیہ اور دو صاحبزادیوں پر مشتمل تھی ۔
ہر والدین کی طرح ان کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بچیاں ان کی زندگی میں پیا
گھر سدھار جائے ۔ ان کی صاحبزادی (ط)نے ماسٹر کرنے کے بعد نجی بینک میں
ملازمت اختیار کرلی ۔ اور دوسری بیٹی (س) نے گریجویٹ کی سند لینے کے بعد
نجی سکول میں بطور استانی اپنی خدمات انجام دینے لگی ۔ اظہر صاحب کا کراچی
میں مستقل قیام اور اپنی صاحبزادیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ایسا
گناہ تھا کہ برادری کے ہر شخص نے ان سے ناطہ توڑ لیا تھا ۔
بچیوں کی بڑھتی ہوئی عمروں نے نے اظہر صاحب اور ان کی اہلیہ کو پریشان
کررکھا تھا ۔ بچیوں کے فریضہ سے سبکدوش ہونے کےلیے اظہر صاحب کی اہلیہ نے
مچولن (رشتہ کرانے والی) کی خدمات کا سہارا لیا ۔ مچولن کے لائے ہو ئے
رشتوں کی بدولت (ط) اور (س) پیا گھر سدھا تو گئیں ۔لیکن سسرال میں ڈھائے
جانے والے ان معصوم بچیوں پر ظلم نے اظہر صاحب اور ان کی اہلیہ کو جیتے جی
ماردیا ۔
(س) کو شادی کے دوسرے روز ہی معلوم ہوگیا تھا کہ اس کا سہاگ شرابی،جواری ،
اوباش قسم کا عیاش آدمی ہے ۔ جو ذرا ذرا سی بات پر (س) کو تشدد کا نشانہ
بنا تا اور اس کے جسم کے نازک حصوں کو سگریٹ سے داغتا ، اپنی عیاشی کے لیے
(س) سے رقم کا تقاضا کرتا اور اسے برے کام کرنے کے لیے مجبور کرتا اور حکم
عدولی کی بناء پر گھنٹوں کمرے بند رکھتا ، اور طلاق کی دھمکیاں دے کر
نفسیاتی ٹارچر دیتا ۔
دوسری جانب (ط) جس گھر میں بیاہی جاتی ہے ۔ مچولن (رشتہ کرانے والی) اظہر
صاحب کی اہلیہ کو بتاتی ہے کہ لڑکا اعلٰی تعلیم یافتہ ،برسرروزگار ، ذاتی
رہائش کا مالک ہے ۔ سیدھے سادے لوگ مچولن کے کہے پر اندھا اعتماد کرکے (ط)
کو بھی رخصت کردیتے ہیں ۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد (ط) کو اندازہ ہو جاتا ہے
کہ اس کا شوہر بے روزگار ہے اور جہاں وہ رہائش پذیر تھے وہ مکان بھی کرائے
پر تھا۔ اور تو اور لڑکے کے والدین بھی حقیقی نہ تھے ۔ صرف چند ہزار روپے
کی خاطر مچولن (رشتہ کرانے والی) نے ایک پڑھی لکھی لڑکی کی زندگی تباہ کردی
تھی ۔ صابر و شاکر عورت نے اللہ کی رضا میں خوش رہنے کو ترجیح دی ۔ (ط) پر
آسماں اس وقت ٹوٹا جب اُس نے اپنے شوہر کی ملازمت کے لیے اپنے والد سے
درخواست کی ۔ اظہر صاحب جو ان سب باتوں سے نہ آشنا تھے اپنی بیٹی کی
درخواست پر رقم خرچ کرکے اپنے داماد کے لیے سرکاری ملازمت کا انتظام کرتے
ہیں ۔ (ط) اپنے شوہر سے ملازمت کے لیے اس کے تعلیمی اسناد مانگتی ہے تو پتا
چلتا ہے کہ وہ میٹرک فیل اور بی ۔ اے کی جعلی اسناد کا حامل تھا۔
ایک سال بعد ڈلیوری کیس کے دوران (ط) اپنی زندگی کی بازی ہارجاتی ہے اور
(س) کورٹ سے خلع حاصل کرکے اپنے والدین کی دہلیز پر واپس آجاتی ہے۔
راقم کو موصول ہونے والی ای-میل میں دکھیاری کی درخواست پر دونوں بہنوں کے
نام کی اشاعت نہیں گئی (س) نے تمام والدین سے التجاء کی ہے کہ خدارا شادی
بیاہ کے معاملے میں خاص کر بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر جلد از جلد رخصت نہیں
کرنا چاہیے ۔ بلکہ لڑکے کے والدین ،لڑکے کہ چال چلن کی مکمل چھان بین کے
بعد کو ئی فیصلہ کرنا چاہیے ۔
(س) کا درد محسوس کر کے جو میری کیفیت ہے وہ میں اشعار میں بیان کرنا چاہتا
ہوں
عرصہ دراز تک اپنی دختر کو سینہ سے لگائے رکھتے ہیں
پل بھر میں کیوں لخت جگر کو اندھے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں
اماں نہ سمجھ اپنے سینے پر مجھے بوجھ
ورنہ دوسرے بوجھ جان کر زندہ درگور کردیتے ہیں
ہوسکے تو اپنے ہاتھوں سے زہر دے دو ماں
روزانہ مرنے سے ایک ہی دفعہ موت دے دو ماں
میری زندگی کا فیصلہ تمھارے ہاتھ ہے
مجھے بنانا ،سنوارنا، بگاڑنا تمھارے ہاتھ ہے
میرے دین نے مجھے اختیار دیا پسند و نا پسند کا
نہ چھینوں یہ حق میرا جو ہمیں خدا نے دیا |