معلم قوم کی تقدیر کا راقم

استاد ،معمار ملت
قانون بشر ہے کہ ہر عمارت کو روئے زمین پر وجود بخشنے کیلئے ایک ایسے فرد کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو اس کام میں متبحر ہو اور مہارت رکھتا ہو ۔ وہ اسلئے کہ اگر یہ معمار ناتجربہ کار ہو اور اس کام میں مہارت نہ رکھتا ہو تو عمارت کی ہئیت اور بنیاد و اساس میں نقص پایا جائے گا اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ’’ خشت اول گر نہد معمار کج، تا سریا میرود دیوار کج‘‘ پس اس سے یہ تو معلوم ہو ا کہ عمارت کی بنیاد سے لیکر آخری حد تک کو نقص و نقائص سے بچانے کیلئے کسی ایسے معمار کی ضرورت ہے کہ جو اپنے کام میں تجربہ رکھتا ہو اور بنیاد و اساس سے ہی اپنا کام درستگی اور اخلاص سے انجام دے تاکہ پوری عمارت بہتریں روش سے آمادہ ہوسکے ۔اسی طرح جہان انسانی میں بھی ضرورت ہے ایک ایسے معمار کی جو انسان کو اخلاقی،معاشرتی اور اجتماعی لحاظ سے تعمیر کرسکے ۔اسی معمار کو انسانی معاشرے میں معلم،استاد اور اس جیسے دیگر اصطلاحات سے یاد کیا گیاہے۔

کسی معاشرے میں اچھے استا د کا پایا جانا ایک غنیمت سے کم نہیں ہے کیونکہ استاد ہی ہے کہ جو معاشرے کی اچھی اور بری سمت کا تعین کرتا ہے ۔ اگر استاد چاہے تو معاشرے کو ایسی ڈگر پر چلائے کو پیشرفت و ترقی کی راہ ہو،اخلاق و اقدار کی پاسداری کرنے کی راہ ہو ،حق و باطل کے تفریق و تمیز کی راہ ہو جہاں حق کو حق اور باطل کو باطل کہا جاتاہو،اور اگر استاد خیرخواہی کی راہ کو چھوڑ کر شیطنت کی راہ کو اختیار کرکے اس منصب انبیاء علیہم السلام سے خیانت کرے تو یہی استاد معاشرے کیلئے ناسور بن جاتا ہے اور معاشرے کو ناسور مہیا کرتا ہے ۔
معلم کی تربیت کا اثر لیکر ہے تلامذہ اور شاگر جو زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے سالوں اپنے معلم سے کسب فیض کرتے ہیں ،معاشرے میں جاکر اخذ شدہ اثر کو معاشرے پر مرتب کرتے ہیں اور معاشرے کی تغییر و تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔معلم کی تربیت اور تعلیم کے حقیر کی نظر میں دو انداز ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی کا اپنا ایک خاص اثر ہے کہ جسکی مستقبل میں شاگرد و متعلم سے توقع کی جاسکتی ہے ۔
۱۔ برین واشنگ (Brain Washing)
۲۔ تفکر و تدبر
برین واشنگ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں استاد چاہے جس صورت میں بھی ہو اور چاہے جو تعلیم بھی دینا چاہتا ہو (حق یا باطل) کو اپنے شاگرد کے سامنے اس انداز سے پیش کرے کہ جز اسکے کوئی بھی شئے اسے صحیح نہ لگے ۔اس میں ایک عنصر تو منحصر کرنا ہے یعنی فقظ اپنی بات تک منحصر کرنا اسکے علاوہ کسی کی جانب رجوع کرنے کی اجازت نہیں۔ایسے عمل کو ہم اندھی تقلید کا نام دے سکتے ہیں یعنی اس میں استاد اپنے شاگرد کو اپنی اندھی تقلید کرواتا ہے اور شاگرد کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہایت منفی عمل ہے اور اکثر اوقات باطل تعلیمات کو رائج کرنے کیلئے اسی روش کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس روش کا عادی معاشرہ کبھی آزاد فکری کی راہ کو نہیں پاتا اور ہمیشہ ذہنی غلامی کی زنجیروں میں بندھا رہتا ہے۔
دوسرا راستہ تفکر و تدبر کا راستہ ہے جس میں استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے ماحول میں رہتا ہے کہ جس میں ہر شاگرد کو اظہار خیال کی آزادی ( (Freedom of Expression دی جاتی ہے اور انکو تفکر و تدبر کی روش سکھائی جاتی ہے چونکہ استاد کو معلوم ہے کہ اگر یہ متعلمین اس روش کو اختیار کرینگے تو یہی نوجوان مستقبل کی پیشرفت اور ترقی کے ضامن ہیں۔ معلم چاہتا ہے کہ ان میں سے ایسے متفکرین نکلے کہ جنکا نام صدیوں تک باقی رہے ، اور یقینا یہی روش ہے کہ جو بوعلی سینا،خوارزمی،ملاصدرا،خمینی،شہید صدر،مرتضٰی مطہری اور ان جیسے دیگر نابغۂ روزگار افراد کو معاشرے کو عطا کرتی ہے اور یہی وہ معلم ہے جو منصب انبیاء ؑ کا حق ادا کر رہا ہے۔
سلسلہ استاذ و تلمیذ قبل از خلقت آدم علیہ السلام:
انسان جنین مادر کی تاریکیوں سے گرچہ دنیا کی ظاہری روشنائی میں قدم رکھتا ہے لیکن فکری طور پر وہ محتاج ہوتا ہے ایک ایسے منوِّر کا ایک ایسے روشنی عطا کرنے والے کا جو اسکو فکری طور پر روشن کردے اور جہالت و لاعلمی کے گھٹاٹوپ اندھیروں اور ظلمتوں سے نکال کر علم کے بحر نور کی جانب منتقل کردے ۔ صرف اسی بات سے ہی ایسے عظیم فرد کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو کسی انسان کو جہالت کے دلدل سے نکالتا ہو اور علم کی حسین وادی میں وارد کردے۔ اور اس سے بڑھ کر فضیلت کیا ہو کہ اللہ اپنے نورانی کلام میں اسی جانب اشارہ کرتا ہے "وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا" کہ جس نے ایک نفس کو زندہ کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ کیا ۔ اس آیت کے ذیل میں بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں زندگی عطاء کرنے سے مراد انسان کو جہالت سے نکال کر علم کی وادی میں داخل کرنا ہے ۔ یقینا استاد ہی کی ذات ہے جو انسان کو اس ذیور گرانقدر سے آراستہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کائنات میں اساتید اور تلامذہ کا سلسلہ نہایت قدیم ہے اور اس سلسلے کا ریشہ کہیں خلقت آدم ؑسے پہلے جاکر ملتا ہے کہ جب اللہ نے ملائک کو خلق کیا تو ملائک اللہ کی درگاہ میں پیش ہوئے نوبت مرحلہ سوال و جواب پہ آئی تو خلاق دو عالم نے ملائک سے پوچھا کہ میں کون ہوں اور تم کون ہو؟ روایت میں ملتا ہے کہ اللہ کا ایک برگزیدہ فرشتہ فرمانے لگا تو تو ہے ، میں میں ہوں ، حتی کہ اس سوال کا تکرار ہو ا پھر وہی جواب دیا گیا ، لیکن دیکھا گیا کہ ایک جوان عالم انوار میں حاضر ہو ا اور مجھے اس بات کی تعلیم دی کہ کہو’’ انت الرب الجلیل و انا العبد الذلیل ‘‘ تو معلوم یہ ہوا کہ کچھ ایسے معلم بھی موجود ہیں کہ جو فرشتوں کو سکھانے والے ہیں۔
معلم منصب انبیاء علیہم السلام:
اور یہی سلسلہ نسل آدم ؑ میں یونہی چلتا رہا کبھی معلم آدم علیہ السلام ہیں اور توحید و وحدانیت خدا کا درس دے رہے ہیں، کبھی اس درس کے مدرس نوح ہیں تو کبھی ابراہیم و موسی ٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے جو معلم انسان و بشر گزرے ہیں اور انسان کو انوار علم بانٹ رہے ہیں اور حق و باطل کی تمیز و تفریق سکھا رہے ہیں تو کبھی دیکھتے ہیں کہ انوار خمسہ کے سردار اور کائنات کا درخشاں ترین ستارہ ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی ﷺ منصب معلم کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ’’انمابعثت معلما‘‘ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے اور قرآن اس بات کی تائید اس انداز میں کرتا ہےکہ ’’ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ‘‘ ’’ اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے‘‘ (الجمعہ ۔۵)
پس معلم کی عظمت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اگر وہ اس شعبے سے تعلق رکھتا ہے تو کوئی معمولی شعبہ نہیں بلکہ اسے ایک ایسے منصب سے نوازا گیا ہے جو تمام انبیاء علیھم السلام بالخصوص رسول اعظم ﷺ کے ساتھ نسبت رکھتا ہے ۔
عرش الٰہی میں عظیم پکارا جاتا ہے!!:
روایت ہے امام صادق علیہ السلام کے ’’ مَن تَعَلَّمَ العِلمَ و َعَمِلَ بِهِ و َعَلَّمَ لِلّهِ دُعِیَ فی مَلَکُوتِ السَّماواتِ عَظیما ‘‘ ’’ جو بھی اللہ کیلئے علم سیکھے اور اس پر اللہ کیلئے عمل کرے اور اللہ کیلئے اسکو سکھائے ملکوت آسمانی میں اس شخص کو عظیم پکارا جاتا ہے۔‘‘
باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام کے لعل امام جعفر صادق علیہ السلام معلم کی عظمت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شرط اخلاص کے ساتھ پہلے خود سیکھے اور پھر دوسروں کو سکھائے اور پھر عمل بھی کرے یعنی اس روایت میں عالم ،معلم اور عامل تینوں کو جمع کیا گیا ہے کہ اگر یہ تینوں شرائظ جمع ہوجائیں تو عرش الٰہی میں اس شخص کو عظیم پکارا جاتا ہے۔لیکن ہمارا مورد نظر اس میں ’’علم للھ‘‘ ہے کہ جو اللھ کیلئے دوسروں کو سکھائے تو اس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ زمین تو کیا عرش الٰہی میں اس لقب سے پکارا جاتا ہے ۔
معلمین کیلئے رسول اللھﷺ کی دعا:
کسی کے مقام و منزلت کیلئے یہی کافی ہے کہ کوئی ایسا شخص اسکے لیئے نیک تمناؤں کا اظھار کرے کہ جو کائنات سب سے عظیم فرد ہو ۔ کیا ہی منزلت ہوگی ایسے شخص کی کہ جو ایسے فرد سے دعا پائے جو مستجاب الدعا ہو اور مستجاب الدعا تو چھوڑئے جو خود لوگوں کی دعاؤں میں وسیلہ قرار پائے ۔حدیث رسول اکرم ﷺ ہے کہ جس میں معلمین کیلئے باقاعدہ صریح الفاظ میں دعا کی گئی ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں’’ اللهم اغفر للمعلمین و اطل اعمارهم و بارک لهم فی کسبهم‘‘ ’’ پروردگارا معلمین کی مغفرت فرما، انکی عمریں دراز فرما اور انکے کسب و رزق میں برکت عطا فرما‘‘
روز معلم :
گرچہ عالمی طور پر روز معلم ۵ اکتوبر کو منایا جاتا ہے لیکن جہان تشیع بالخصوص ایران میں ۲ مئی کو ،بطور روز معلم منایا جاتاہے ۔ روز معلم ایران میں ۲ مئی کو ابتداء میں ایک استاد ابوالحسن خان علی کی شہادت کی وجہ سے منایا جاتا رہا لیکن جب ۱مئی ۱۹۷۹کو آیت اللہ مرتضیٰ مطہری کی جانسوز شھادت واقع ہوتی ہے تو یہ دن ان کی تکریم کیلئے ان سے منسوب کیا گیا اور تب سے لیکر تا بہ حال یہ دن انہیں کی یاد کے ساتھ انکی خدمات کو یاد کرتے ہوئے منایا جاتا ہے ۔
آیت اللھ شھید مرتضی مطھری کا مختصر تعارف:
آیت اللہ مرتضی مطھری کہ جو اس صدی کے ممتاز دینی علماء میں شمار ہوتے ہیں۳۱ جنوری ۱۹۱۹ کو فریمان جو مشھد کا نواحی گاؤں ہے ،میں پیدا ہوئے۔حوزہ کی تعلیم کی ابتداء آپ نے ۱۲ سال کی عمر میں حوزہ علمیہ مشھد سے کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے قم تشریف لے گئے اور وہاں مختلف آیات عظام سے کسب فیض کیا جن میں آیت اللہ مرعشی نجفی،آیت اللہ محمد حسین طباطبائی،آیت اللہ سید حسین طباطبائی بروجردی اور آیت اللہ کے علاوہ دیگر اساتید شامل ہیں۔
آیت اللہ مطھری کے منظر عام پر آنے کی ایک وجہ آپ کا تھران کی جانب منتقل ہونا بھی ہے چونکہ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آپ یونیورسٹی کی جانب سے دین اسلام پر وارد ہونے والے اشکالات سے روبرو ہوتے ہیں اور ان اشکالات کے جوابات کیلئے کمر کس لیتے ہیں اور اسی وجہ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ آپکے آثار کا دائرہ فقط فقہ و اصول تک محدود نہ تھا بلکہ آپ جہاں علوم اسلامی میں متبحر اور وارد تھے جیسے علم کلام،فلسفہ،فقہ و اصول،الہیات،عرفان ،معاشرہ شناسی وغیرہ ،تو وہیں دوسری جانب مغربی فلسفہ ،مختلف سائنسی موضوعات،رئیلزم،سوشلزم،مارکسیزم اور اس جیسے دیگر موضوعات پر کامل دسترس رکھتے تھے اور نہ صرف یہ کہ ان تمام نظریات اور علوم کا دقیق مطالعہ رکھتے تھے بلکہ انکا بھرپور جواب اور نقد بھی پیش کیا ہے ۔اسی وجہ سے مغربی دنیا میں آیت اللہ مطھری کو ان نظریات کی ترویج کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔
جہاں آپ علمی طور پر ایک محکم اور مضبوط ستون کی مانند تھے وہیں سیاسی زندگی میں بھی آپکی فعالیت اور کارکردگی قابل دید اور قابل تعریف تھی۔ اسطرح سے کہ آپ امام خمینی کے دست راست شمار کئے جاتے تھے ۔ انقلاب اسلامی کیلئے آپ کی زحمات ہمیشہ یاد رکھی جائینگی کیونکہ آپ نے نہ قید و بند سے دریغ کیا اور نہ کبھی دیگر مشکلات اور صعوبتوں سے گھبرائے حتی کہ اسی انقلاب اسلامی کی راہ میں تعلیمات اسلامی کے نفوذ کیلئے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا۔ آپ کو ۱ مئی ۱۹۷۹ کو گروہ فرقان کی جانب سے شہید کیا گیا۔
آیت اللہ مرتضی مطھری کو اس صدی کا متفکر کہا گیا ہے حتی کہ سنا گیا ہے کہ امام خمینی نے انکی تصانیف و علمی خدمات کے بارے میں یہ کہا ہے کہ ایک صدی تک آپ کے آثار کو پڑھا جاسکتا ہے اور ہر زمانے کیلئے مفید تعلیمات ہیں اور اس زمانے کے مطابق ہونگے۔ اور یہ بات مبالغہ آرائی سے بھی بالکل پاک ہے کیونکہ اس بات کو اس زمانے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اب بھی کہ انکی شھادت کو ۴۰ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اب بھی چاہے حوزہ ہو یا کالج اور یونیورسٹی ہو انکے آثار سے استفادہ کررہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی نے ان سے براہ راست درس نہ لیا ہو انکی درسی کلاس میں شرکت نہ بھی کی ہو تب بھی آپکو استاد کے لقب سے پکارتے ہیں ۔یقینا ایسا شخص ہی استاد کہلاتا ہے کہ جو ذوالفنون ہو اور کئی علوم پر دسترس رکھتا ہو اور پھر نہ صرف یہ کہ حوزے کی ممتاز شخصیت ہو بلکہ دنیاوی علوم میں بھی اپنا لوہا منوایا ہو اور اپنی دھاک بٹھائی ہو ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک صاحب عمامہ اور لباس روحانیت سے ملبس شخص جب یونیورسٹی میں جاتا ہے اور وہ بھی اس زمانے میں جب ایران کی یونیورسٹیوں میں مارکسیزم اور اسطرح کے دیگر ازم کی بھرمار تھی ،ایسے میں ایک متفکر اسی لباس میں جس سے وہ سب متنفر تھے وارد ہوتا ہے اور انکے اشکالات کے قانع کنندہ جواب دیتا ہے اور روشن فکروں ،دین گریزوں،اور دین مخالفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہی یونیورسٹی کے طلاب آپ کے گرویدہ ہوکر اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاتے ہیں اور انقلاب اسلامی کے داعی اور پروانے بنتے ہیں۔آپ حقیقی طور پر نہ فقط ملت ایران کے بلکہ ایران کے اطراف میں اور دنیا کے گوشہ و کنار میں اپنے قلم کی مہارت سے اور ولایت کی روشن شمع دل میں لئے ،دیگر اقوام کے بھی معمار بنے اور انکو عقیدتی ،اخلاقی اور سماجی طور پر سنوارا اور انکی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ۔یقینا آیت اللہ شہید مرتضٰی مطہری کا نام رہتی دنیا تک جلی حروف میں لکھا جائے گا اور تا ابد دلوں میں زندہ رہیں گے۔

والسلام مع الاکرام۔
محمد وسیم خان محمدی

 

Haseeb Ahmad
About the Author: Haseeb Ahmad Read More Articles by Haseeb Ahmad: 2 Articles with 1091 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.