اسے کہنا ملاقات ادھوری تھی وہ
اسے کہنا کہ کبھی آ کر دوبارہ مل جائے
ماں تین حروف پر مشتمل یہ لفظ اپنے اندر کل کائنات کو سمیٹے ہوئے ہے ۔ماں
کو میں اولاد کی پہلی درسگاہ لکھوں، عزت و احترام کا پیکر لکھوں، زندگی کا
مفہوم لکھوں، حیات کی بہار لکھوں، ، پہلی و اخروی چاہت لکھوں،فرطِ محبت کا
پیکر لکھوں،جنت لکھوں یا کچھ بے مقدوروں کے لیے فقط خواب لکھوں۔ ماں ایک
باشعور اور عظیم عورت جو اپنی اولاد کے لیے بادِ صبا کی مانند ہوتی ہے۔
اولاد کی خاطر مشکلات جھیلتی ہے، دکھوں کو منہ پہ قفل لگا کے خامشی سے سہہ
جاتی ہے ۔
نبی مھتشم ﷺ نے ارشاد فرمایا
"جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ "
ماں کی عظمت و فضیلت فقط ایک دن بیان کرنے کے واسطے نہیں ہوتی ہے ، وہ تو
ایک ایسی شخصیت ہے جو تمام عمر بلکہ ہر دن، ہر لمحہ عزت و محبت اور خلوص کی
مستحق ہے۔جو شے آپ کے پاس ہو اسکی قدر آپ کبھی نہیں کر پاتے یعنی جن کی ماں
ان کے پاس موجود ہے وہ ماں کو جھڑکتے ہیں، بحث کرتے ہیں گستاخانہ لہجے میں
بات کرنا اب لوگوں کے لیے اک عام سے بات ہو گئی ہے۔
جب کہ رب تعالی کا ارشاد ہے
" اور اپنے والدین کو اف نہ کہو اور نہ ہی جھڑکو”
اف کہنے کی اسلیے ممانعت ہے کیوں کہ اس سے انھیں تکلیف پہنچتی ہے تو جو
سیاہ بخت اپنی ماں کو مارتے ہیں، ان کے دل کیوں نہیں دہلتے؟ کیوں ان کے
ضمیر ملامت نہیں کرتے؟ کیوں ان کو اس وقت موت نہیں آ جاتی؟؟؟
آپ کو ابھی میری باتیں فقط فضولیات لگیں گی لیکن واﷲ اگر ماں کی قدر و
منزلت پوچھنی ہے تو ان سے پوچھیے جنکی مائیں داعی اجل کو لبیک کہہ کر منوں
مٹی تلے جا سوئی ہیں۔ وہ اولاد انھیں ہر پل ہر لمحہ یاد کر کے تڑپتی ہے،
سسکتی ہے، لیکن وہ فرطِ محبت سے ماتھا چومنے والی تو دار البقا جا بسی ہے،
وہ نہ ہی ان کی سسکیاں سنتی ہے، نہ ہی آہیں۔۔ اولاد کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو
جائے وہ اپنی ماں کو کبھی نہیں بھول سکتی چاہ کر بھی نہیں۔۔ وہ یہی کہتے رہ
جاتے ہیں۔
پڑا ہے گھر یہ سونا
لوٹ آؤ
ہوا اب ایک عرصہ
لوٹ آؤ
چلو میں ہی غلط تھی
معاف کر دو
کرو بھی ختم جھگڑا
لوٹ آؤ
اپنی ماؤں کے ساتھ وہ سلوک کیجیے جس کا رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس سے پہلے
کہ وہ آپ سے جدا ہو جائیں اور آپ سب کچھ پا کر بھی خالی ہاتھ رہ جائیں۔۔
تمہارے بعد سفر میں کوئی مزہ نہ رہا
ہر ایک موڑ پہ سوچا کے لوٹ جائیں کیا؟
ماں تجھے سلام ✨
|