چھوٹی سی خبر تھی کہ لاہور کے علاقے بھاٹی گیٹ میں گیس پریشر میں کمی پر
وہاں کی خواتین نے اس علاقے میں واقع سوئی گیس کے دفتر پر چڑھائی کر
دی۔دفتر کے شیشے توڑ دئیے۔ فرنیچر اور دفترکی دیگر چیزوں کو نقصان پہنچایا
۔گیس پریشر بڑھانے کا مطالبہ کیا اور سڑک کو بند کرکے کچھ دیر تک احتجاج
کیا۔ اس احتجاج اور مار پیٹ کے نتیجے میں سوئی گیس کے عملے نے گیس پریشر کو
بہتر کر دیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ توڑ پھوڑ کرنے پر خواتین کے خلاف کیا
کاروائی ہوئی، سوئی گیس کے عملے نے بتایا کہ سوئی گیس کا لیگل ڈیپاٹمنٹ اس
بارے میں خواتین کے خلاف کاروائی کرے گا۔انہوں نے تمام واقعات کی رپورٹ بنا
کر انہیں بھجوا دی گئی ہے۔یہ کس کے خلاف کرے گا یہ انہیں خود بھی معلوم
نہیں کیونکہ ہجوم میں کسی خاص شخص پر الزام لگانا عام طور پر ممکن نہیں
ہوتا۔
گو یہ ایک افسوسناک واقع ہے۔ کسی دفتر کو نقصان پہنچانا، وہاں توڑ پھوڑ
کرنا، راستہ بلاک کر دینا، یہ سبھی اقدامات قانونی طور پر ایک غلط اقدام
ہیں مگر کیا کیا جائے ۔ کہتے ہیں تنگ آمد بجنگ آمد۔جب ہر طرف ، ہر محکمے نے
یہ طے کیا ہو کہ اس نے عام آدمی کو خراب کرنا، اسے اس کا جائز حق جوڑ توڑ
کے بغیر نہیں دینا تو عام آدمی مجبور ہو جاتا ہے۔اسے بولنا ہورا ہے۔ احتجاج
اس کا فرض ہو جاتا ہے۔عورتوں کے اس احتجاج کے بعدمحکمے کے لوگوں نے گیس کا
پریشر بہترکیا ۔جو کام اب ہوا ہے، کیا یہ کام پہلے نہیں ہو سکتا تھا۔جو کام
توڑ پھوڑ اور رستہ بلاک کرنے کے نتیجے میں ہوا وہ اس سارے احتجاج کے بغیر
بھی ا ٓسانی سے ہو سکتا تھا۔لیکن وہ لوگ جن کی نیتیں خراب ہوں ،جو اپنے
چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے لوگوں کو ذلیل کرنا برائی نہ سمجھتے ہوں ان کا
یہی علاج ہے۔عورتوں کا یہ قدم قوم کے زندہ ہونے کی نشانی ہے۔قوم کی عورت
اگر باشعور ہو جائے تو نسلیں سنور جاتی ہیں۔ یہ قدم گو غلط سہی مگر عورتوں
کے زندہ ہونے کا عکاس ہے۔ یہ عورتیں جو نسل تیار کریں گی، جن بچوں کی تربیت
کریں گی، وہ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کا دکھ پر بھی افسوس محسوس کرنے والے
ہوں گے۔ہمارے بہت سارے سرکاری ملازم اس قدر کرپٹ ہو چکے ہیں کہ وہ حرام
خوری اور رشوت کو برا سمجھتے ہی نہیں اوروہ لوگ لاتوں کے بغیر کوئی بات
ماننے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔
دنیا میں ہمیشہ سے ہی یہ اصول رہا ہے کہ جو چیز آپ کو آسانی سے حاصل نہیں
ہو سکتی اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کا حق ہے تو انسانی جبلت ہے کہ آپ اسے
چھین کو لے لیتے ہیں۔ معاشروں ، قبیلوں اور مذہب کا دنیا میں قیام کا مقصد
ہی انسان کو اس چھیناچھپٹی سے نجات دلانے اور اس کے جائز حق خود بخود آپ تک
پہنچانا ہوتا ہے۔ لیکن جہاں معاشرہ آپ کو آپ کو حق نہیں دلاتا تو اسے آپ کو
چھین لینا ہوتا ہے۔ کم مذہب معاشروں میں یہ خامی ہوتی ہے کہ ذمہ دار لوگوں
کو خیال ہی تب آتا ہے کہ جب لوگوں کے ہاتھ ذمہ داروں کے گریبانوں تک پہنچ
جاتے ہیں۔جبر اور نا انصافی کے خاتمے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ اپنے
مفادات کے تحفظ کے لئے اکٹھے ہو کر نکلیں۔ کوئی اکیلا اگر احتجاج کرے تو وہ
ریاستی اداروں کے نشانے پر ہوتا ہے ، اسے بے جا تنگ کیا جاتا ہے، لیکن جسے
ہجوم کہتے ہیں وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ اس کا ہر قدم جائز سمجھا
جاتااور ریاستی حکام اس سے ڈرتے ہیں۔اس سلسلے میں مجھے ایک پرانا واقعہ یاد
آیا، جس میں اسی طرح خواتین نے اپنے شعور اورجرات کا مظاہرہ کیا۔
میسی چیوسست امریکہ کی مشہور ریاست ہے جہاں دنیا کی عظیم درسگاہ MIT واقع
ہے۔ اس ریاست کا کپیٹل 1630 میں وجود میں آنے والا شہر بوسٹن (Boston) ہے۔
یہ امریکہ کی قدیم میونسپٹلیوں میں سے ایک ہے۔1977 میں بوسٹن میں کافی،
چائے ،چینی اور دیگر اجناس کی کمی ہو گئی۔ وہاں کے بڑے تاجروں نے اس کا
فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ساری چیزیں اپنے گوداموں میں ذخیرہ کر لی اور انہیں
چوری چھپے لوگوں کو مہنگے داموں بیچنا شروع کر دیں۔تھامس وہاں کا ایک بڑا
تاجر تھا۔ اس کے گودام ان اجناس سے بھرے ہوئے تھے۔وہ خوش تھا کہ اپنی مرضی
کے ریٹ حاصل کرکے وہ اپنا مال بہت مہنگے داموں بیچ رہا ہے اور اندھا منافع
حاصل کر رہا ہے۔مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جا رہا
ہے۔اس وقت بوسٹن ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔چند سو کے لگ بگ گھر ہونگے، چنانچہ
ان گھروں کی سو سے زیادہ عورتیں ایک جگہ اکٹھی ہوئیں اور ایک جلوس کی صورت
تھامس کے گودام پر پہنچ گیئں۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے تھامس کو گودام کی
چابیاں دینے کا کہا۔تھامس نے چابیاں دینے سے انکار کر دیا۔انہوں نے آگے بڑھ
کر تھامس کی گردن دبوچ لی۔ اس کی جیب سے زبردستی چابیاں نکالیں ۔اسے ایک
کونے میں بٹھا دیا۔ اس کے ہلنے جلنے پر پابندی لگا دی ۔ پھر گودام کے تالے
کھولے۔سارے سامان کو قبضے میں لیا۔ بیل گاڑیاں منگوائی گئیں اور گودام کا
سارا سامان ان بیل گاڑیوں پر لاد کر لے گیئں۔یہ ایک جرم تھا مگر اجتماعی،
ایسا جرم جس کا مجرم پورا معاشرہ ہوتا ہے اورکسی فرد د واحد کو اس میں
نامزد نہیں کیا جا سکتا تھا۔تھامس لٹ گیا لیکن کسی دوسرے کو کچھ نہیں ہوا
اس لئے کہ خواتین نے جو کچھ کیا وہ معاشرے کی بھلائی اور بہتری کیلئے تھا
اور تنگ آمد بجنگ آمد کے اصول پر مبنی تھا۔
یہ زندہ معاشرے کی ایک ایسی مثال ہے۔ٹاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو ایسے
واقعات سے بھری پڑی ہے اور ایسے واقعات کے نتیجے میں معاشروں پر بہت مثبت
اثر بھی ہوا ہے۔ ایسے سارے واقعات دوسروں کے لئے بھی مشعل راہ ہیں۔ہمارے
ملک میں جو حالات ہیں، جس قدر لوٹ گھسوٹ، چور بازاری اور حق تلفی ہے، ہمیں
جن کو ہر قدم پر چوروں ڈاکوؤں، لٹیروں اور ذخیرہ اندوزوں سے سامنا ہے ،
جہاں سیاست اور ثقافت میں، رہن سہن میں ، اٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے ہر وقت
دشواریاں، تلخیاں اور نا انصافیاں ہماری منتظر ہوتی ہیں وہاں زندہ رہنے کے
لئے ایسے ہی جذبے اور ایسی ہی تحریک کی ضرورت ہے۔ ہم اور ہماری عورتیں کو
برائیوں کا سامنے ڈٹ جانے کے لئے تیار ہونا ہو گا۔ہمیں سوچنا ہے کہ اس نا
انصافی کے خاتمے کے لئے ہمیں اس جبر اور ظلم کے سامنے پوری طرح ڈٹ جانا ہے
اور اس کا مقابلہ اسی طرح اور اسی انداز میں کرنا ہے، جس طرح ماضی میں لوگ
کرتے رہے ہیں۔ یقین مانیں لوگوں کو اگر زندہ رہنا آ گیا تو ظلم کی سیاہ رات
کو ختم ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
|