جنّت میں کون جائے گا ؟

نامور سائنسدان اور مشہور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم ( مرموز و اثرار اہرامِ مصر ) میں لکھتے ہیں کہ مَیں دوبار مصر گیا اور قاہرہ میں دونوں بار اہرام مصر کی سیر کی۔ پہلی مرتبہ ہم مصری حکومت کی دعوت پر گئے تھے اور بعد میں اپنی فیملی کے ساتھ سفیرِ پاکستان اَنور کمال کی دعوت پر گیا تھا۔ اہرام مصر کی تعمیر میں اس قدر سائنسی راز پوشیدہ ہیں کہ میں نے چاہا کہ آپ کو ان سے آگاہ کروں . آپ پڑھ کر یقین نہیں کرینگے مگر یہ حقیقت پر مبنی حقائق ہیں، پڑھیئے:۔1. جو پتھر اہرام کی تعمیر میں لگائے گئے ہیں۔ انکا وزن 2 سے 15 ٹن تک ہے۔ 2. اہرام میں تقریباً 30 لاکھ پتھر لگائے گئے ہیں۔ 3. فرعون کے کمرے کی چھت پر جو پتھر لگا ہے۔ اسکا وزن 70 ٹن ہے۔ یعنی 70 ہزار کلوگرام اور آج تک کوئی یہ حل پیش نہیں کرسکا کہ کس طرح بنانے والوں نے اتنا بڑا اور وزنی پتھر چھت پر لگایا۔ 4. اِہرام کی بلندی 149.4 میٹر ہے اور آپکو تعجب ہوگا کہ زمین اور سورج کے درمیان 149.4 ملین کلومیٹر کا فاصلہ ہی ہے۔ 5. اہرام کے اندر جانے کا راستہ ایک ستارہ یعنی شمالی پول کی سمت بتلاتا ہے اور اندرونی راستہ سگ ستارہ (Sirius Star) کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ (جسکا ذکر سورۃنجم آیت 49 میں آیا ہے)۔ 6. اگر آپ گوشت کا تازہ ٹکڑا اہرام کے کمرے میں رکھیں گے تو وہ سڑے گا نہیں بلکہ خشک ہوجائے گا۔ یہ راز آج تک راز ہی ہے۔ 7. اہرام کے سرکم فرینس (محیط) کو اگر اسکی اونچائی سے تقسیم کیا جائے تو یہ 3.14 کے برابر ہے۔ جو ریاضی اور فزکس میں پائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی دائرے کے محیط کو اسکے قطر سے تقسیم کریں تو یہ عدد ملتا ھے۔ یہ ناقابل یقین کرشمہ ہے۔ 8. رات کے وقت اہرام چمکتا ہے۔ کیونکہ اس پر برقی رنگ کی پالش کی گئی ہے۔ جس طرح بعض گھڑیوں کا ڈائل رات کو چمکتا ہیں۔ کیونکہ اسکی سوئیوں اور نمبروں پر تابکار دھات ریڈیم کے رنگ کی پالش ہوتی ہے۔ 9. تینوں اہراموں کی لائن ، آسمان میں چمکنے والے ستاروں (Belt of Orinion) کے متوازی (Parallel) ہے۔ 10. سال میں صرف ایک دن سورج کی شعائیں اہرام کے اندر داخل ہوتی ہیں۔ یہ دن فرعون کا یومِ پیدائش ہے۔ 11. اہرام میں رکھی تلواریں اور چھریاں زنگ آلود نہیں ہوتیں۔ حالانکہ ہزاروں برسوں سے وہ وہاں موجود ہیں اور سائنسدان ا?ج تک اس راز کو نہیں سمجھ سکے۔ 12. اہرام کے چند کمروں میں بہت سے آلات بند ہوجاتے ہیں اور سائنسدان آج تک یہ راز حل نہیں کرسکے۔ 13. تعجب کی بات ہے اور راز ہے کہ تینوں اہراموں سے جو لکیر گزرتی ہے وہ بحر اوقیانوس میں واقع برمودا ٹرائی اینگل اور بحرالکاہل میں واقع فارموسا ٹرائی اینگل کو آپس میں ملاتی ہے . یہ دونوں جگہیں اپنی عجیب خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ یہاں ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، غائب ہوجاتے ہیں اور کمپاس کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ 14. بڑے اہرام میں 3 کمرے ہیں۔ دو زمین سے اْوپر ہیں اور ایک زمین کے اندر اور کہا جاتا ہے کہ Mirabo نامی شخص ، ماہر انجینئر نے یہ اہرام تقریباً 20 برسوں میں بنایا تھا اور ایک لاکھ مزدوروں نے اسکی تعمیر میں جان کھوئی تھی۔ 15. اہرام کی بنیاد کے چاروں رْخ نہایت تعجب کے ساتھ زمین کی چاروں سمتوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور اس حیرت انگیز دریافت کی مدد سے بیسویں صدی عیسوی میں اپنے نتائج کو درست کیا جاتا تھا۔ 16. جو دائرہ (Orbit) اہرام کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ وہ تمام براعظموں اور سمندروں کو بالکل برابر دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ انکا رقبہ ایک دوسرے سے برابر ہے۔ 17. اگر بلیڈز وہاں رکھ دیئے جائیں تو وہ نہایت تیز ہوجاتے ہیں۔ سائنسدان یہ راز بھی حل نہیں کرسکے۔ 18. سائنسدان کہتے ہیں کہ جو باتیں ا?ج تک پرانی چیزوں اور رازوں سے ملی ہیں۔ وہ سمندر میں قطرے کے برابر ہیں۔ 19. ایک امریکی پروفیسر نے یہ تمام راز بتاتے ہوئے کہا کہ یہ راز اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ کسی بیرونی ، ا?سمانی مخلوق کی کارکردگی ہے۔ زمینی مخلوق اتنی عقل و فہم نہیں رکھتی تھی اور نا رکھ سکتی ہے۔ ایک اور بات اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ جب پورے عیسائی یورپ کی سب سے بڑی لائبریری میں کتابوں کی تعداد 6 ہزار تھی۔ تو اسلامی یورپ کے صرف ایک شہر قرطبہ میں سالانہ 60 ہزار کتابیں ہاتھ سے لکھی جارہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت مسلم حکمران کی لائبریری میں کتابوں کی تعداد 4 لاکھ تھی۔ قائرہ ، بغداد ، دمشق ، بخارا اور فاز کے کتب خانوں کا ذکر اس کے علاوہ ہے۔ تو اگر قوم کی ترقی ، عروج و زوال کا تعلق صرف علم سے ہوتا تو اندلس پستی کی طرف کیوں گیا ؟ سائنس و علم پر ہنر رکھنے والے مسلمان نہانے کو بیماری کا سبب سمجھنے والے مغرب سے شکست کیوں کھا گیے ؟ دراصل قوم کے عروج اور زوال کا تعلق اس کی کتابوں ، اس کے فوجی لشکر یا اس کے ڈگری ہولڈرز سے نہیں ہوتا بلکہ قوم اس وقت ترقی کرتی ہے۔ جب وہ اپنے نظریے پر کاربند ہو اور جب وہ نظریے میں سستی دکھائے۔ اس میں ملاوٹ کرے تو وہ ناکام ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے خلفاء راشدین کے دور میں مسلمان عروج پر تھے۔ حالانکہ اس وقت مدینہ روم و فارس کے دارالحکومت کے سامنے کچھ نہیں تھا. محلات ، معیشت ، آرٹ ، فوج اور علم و ہنر کے باوجود روم و فارس پستی میں تھا۔ جبکہ کچے گھر ، پیوند لگے کپڑے اور محدود لشکر کے ساتھ خلافت راشدہ عروج پر تھی۔ کیونکہ ان کا اپنے نظریے سے تعلق خالص اور شفاف تھا۔ جب اندلس میں مسلمانوں نے اسلامی نظریے سے غفلت برتی۔ جب آپس میں اختلافات کا شکار ہوئے۔ جب ایک امام کے بجائے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل اختیار کی۔ جب اﷲ کے حکم ( تفرقے میں نہ پڑو ) کو بھول گئے۔ تو وہ پستی میں چلتے گئے۔ تو آج جو لوگ دعوی کرتے ہیں کہ صرف علم اور ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے مسلمان پستی میں ہیں۔ تو ان سے عرض ہے کہ دراصل پستی کی وجہ سے علم اور ریسرچ میں فقدان ہے۔ جس دن مسلمان اپنے نظریے کو تھام لیں۔ اس دن وہ غالب آئیں گے اور پھر قائرہ ، بغداد ، بخارا ، کراچی ، ڈھاکہ ، جدہ اور خرطوم علم اور آرٹ کے مرکز ہوں گے. ان شاء اﷲ

سوال تھا کہ جنت میں کس مذہب کے لوگ داخل کیے جائیں گے ۔ یہودی عیسائی یا پھر مسلمان ؟ اس سوال کے جواب کے لئے تینوں مذاہب کے علماء کو مدعو کیاگیا ۔ مسلمانوں کی طرف سے بڑے عالم امام محمد عبدہ ،عیسائیوں کی طرف سے ایک بڑے پادری اور یہودیوں کی طرف سے ایک بڑے ربی کو بلا کر ان کے سامنے یہی سوال رکھا گیا ۔کہ ’’جنت میں کون جائے گا ؟ ‘‘ یہودی ، عیسائی یا پھر مسلمان ؟ مسلمانوں کی طرف سے امام محمد عبدہ نے کھڑے ہو کر ایسا مدلل جواب دیا کہ محفل میں روہ گئے اوربغیر کوئی جواب دئیے خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے ۔ آپ کا جواب مختصر ،جامع ،مقبولیت سے بھر پور ادب و احترام کے ساتھ روادی کی عمدہ مثال اور حکمت و دانائی کا مرقع تھا ۔ انکے جواب نے سارے مسلمانوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی اور یہ باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ۔ آپ نے فرمایا ۔اگر یہودی جنت میں جاتے ہیں ۔تو ہم بھی ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے ۔ کیونکہ ہم انکے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی ایم رکھتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنی مخلوق کی رہبری اور ہدائیت کیلئے نبی معبوث کیا ۔ لیکن اگر مسلمان جنت میں گئے ۔ توہم صرف اﷲ کی رحمت کے ساتھ اکیلے ہی جنت میں جائیں گے ۔ہمارے ساتھ کوئی یہودی اور عیسائی نہیں جائیگا۔ کیونکہ انہوں نے ہمارے نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو نہیں مانا اور نہ ہی اُن پر ایمان لائے ہیں ۔ان سب کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب ’’ سو عظیم شخصیات ‘‘ کو لکھنے میں 28سال کا عرصہ لگایا اور جب اپنی تالیف کو مکمل کیا تو ل ندن میں ایک تقریب رونمائی منعقد کی ۔ جس میں اس نے اعلان کرنا تھا کہ تاریخ کی سب سے ’’ عظیم شخصیت ‘‘ کو ن ہے ؟ جب وہ ڈائس پر آیا تو کثیر تعداد نے سیٹیوں ، شور اور احتجاج کے ذریعے اس کی بات کو کاٹنا چاہا ۔ تاکہ وہ اپنی بات کو مکمل نہ کر سکے ۔ پھر اس نے کہنا شروع کیا کہ ایک آدمی چھوٹی سی بستی مکہ میں کھڑے ہو کر لوگوں سے کہتا ہے کہ’’ میں اﷲ کا رسول ہوں ‘‘ میں اس لیے آیا ہوں تاکہ تمہارے اخلاق و عادات کو بہتر بنا سکوں ۔ تو اسکی اس بات پر صرف 4لوگ ایمان لائے جن میں اسکی بیوی ، ایک دوست اور 2بچے تھے ۔ اب اسکو 1400سو سال گزر چکے ہیں ۔ مرورِ زمانہ کہ ساتھ ساتھ اب اسکے فالورز کی تعداد ڈیڑھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور ہر آنے والے دن میں اس کے فالورز میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے ۔ کیونکہ 1400سو سال جھوٹ کا زندہ رہنا محال ہے اور کسی کیلئے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ ڈیڑھ ارب لوگوں کو دھوکہ دے سکے ۔ ہاں ایک اور بات ! اتنا طویل زمانہ گذرنے کے بعد آج بھی لاکھوں لوگ ہمہ وقت اسکی ناموس کی خاطر اپنی جان تک قربان کر نے کیلئے مستعد رہتے ہیں ۔ کیاہے کہ کوئی ایک بھی ایسا مسیحی یا یہودی جو اپنے نبی کی ناموس کی خاطر حتیٰ کہ اپنے رب کی خاطر جان قربان کرے؟ بلا شبہ تاریخ کی وہ عظیم شخصیت ’’حضرت محمد ﷺ ‘‘ہیں ۔اسکے بعد پورے ہال میں اس عظیم شخصیت اور سید البشر ﷺ کی ہیبت اور اجلال میں خاموشی چھا گئی ۔ ﷺ اﷲ پاک ہمیں اسواۃ حسنہٰ پر چلنے اس پر عمل کرنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین ،بشکریہ سی سی پی۔


 

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 31 Articles with 21456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.