یہ 1967 کا ذکر ہے. عرب اسراٸیل جنگ شروع ہوچکی تھی ۔ یہ
جنگ صرف عرب تک محدود نہ تھی بلکہ اسلام اور یہود کی وہ جنگ تھی جس کا
حقیقی آغاز میثاقِ مدینہ اور خیبر کی فتح کے بعد ہوچکا تھا ۔ جیسا کہ تاریخ
اور دینیات کا ہر طالبِ علم جانتا ہے کہ قومِ یہود اپنے شر اورشرارتوں کی
وجہ سے اللہ کی نافرمان قوم ہے جس نے انبیاٸے کرام علیہم السلام کو بھی
شہید کیا ۔ اسی قوم کی گردن پہ سیدنا یحییٰ علیہ السلام کا خون بھی ہے تو
روح اللہ سیدنا عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی
اور پھر سیدہ مریم علیہا السلام کے کردار پر بھی نعوذ باللہ کیچڑ اچھالنے
کی جسارت اسی قوم کے افعال میں شامل ہے اسی لیے مسلمان ہوں یا مسیحی ۔۔۔
دونوں ہی کے نزدیک یہ شّری قوم ہے بلکہ کیتھولک مسیحی آج تک اس نافرمان قوم
پہ تبرا بھیج کر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار
کرتے ہیں ۔ اسی لیے عرب اسراٸیل جنگ شروع ہوٸی تو عرب کے نسطوری اور
کیتھولک مسیحیوں کے جذبات بھی مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے کیونکہ وہ جانتے
تھے کہ صیہونی طاقت امنِ عالم کی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ اس جنگ نے نظریاتی رخ
اختیار کیا تو اسراٸیل نے جرمن اور امریکی یہودی فوجی افسران بھی جنگ میں
جھونک دیے ۔ عرب ممالک اس وقت جدید جنگی حالات سے واقف نہ تھے چنانچہ اُن
کی نگاہیں اپنے بڑے بھاٸی پاکستان پر گٸیں جو دو سال قبل بھارت جیسی مضبوط
قوت کو ناک و چُنے چبواچکا تھا اور شکست سے دوچار کیا تھا ۔ پاکستان جس کے
متعلق اسراٸیل نے اپنے ناجاٸز وجود کے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہمارا دشمن
پاکستان ہے تو پاکستان اب عرب ممالک کا ساتھ دینے کے لیے حق بجانب تھا پھر
یہی وہ دور تھا جب اسراٸیل بھارت کی خفیہ ایجنسی " را " کو مضبوط کر رہا
تھا اسی لیے اس جنگ میں پاکستان نے اپنے فضاٸی مجاہد عربوں کے دفاع کے لیے
بھیجنے کا تہیہ کرلیا ۔ مگر اس جنگ میں جانا پاک فضاٸیہ کے افسران کے لیے
ایک آپشن تھا اسی لیے وہی افسران جاسکتے تھے جو خود جانا چاہیں ۔ ابھی
فضاٸیہ میں یہ اعلان ہی ہوا تھا کہ مسرور بیس کراچی پر تعینات ایک مسیحی
اسکواڈرن لیڈر جو جنگِ ستمبر میں شاندار کارنامے دکھا کر ستارہ جرأت حاصل
کرچکا تھا اس نے خود کو پیش کردیا ۔ بیس کمانڈر نے درخواست موصول ہونے کے
ساتھ اسے اپنے دفتر بلوایا اور کہا
" مسٹر میروِن ! یہ جنگ سراسر مسلمانوں اور یہودیوں کی ہے آپ اس میں کیوں
شریک ہونا چاہتے ہیں ؟
مسیحی افسر نے جواباً کہا
" سر ! مجھے پاکستان عزیز ہے اور اسراٸیل یقینی طور پر پاکستان کا دشمن ہے
تو میری خواہش ہے کہ پاکستان کے دشمن کو سبق سکھاٶں تاکہ وہ جان لے کہ
پاکستان کیا چیز ہے "
ایرون کا یہ حوصلہ دیکھ کر بیس کمانڈر نے پھر سمجھایا تو اب کی بار میرون
نے کہا
" سر ! یہودی قوم موت کے خوف سے جنگ سے ہمیشہ بھاگتی ہے ۔ اب کی بار ہاتھ
آٸی ہے تو دشمنِ خدا اور دشمنِ یسوع کو سبق سکھانے کا اس سے اچھا موقع پھر
نہیں آٸے گا ۔ اسی لیے میں جانا چاہتا ہوں "
یہ سن کر بیس کمانڈر نے اسے نامزد کردیا اور وہ مسیحی پاٸلٹ اپنے رہبر ونگ
کمانڈر سیف الاعظم اور دیگر پاکستانی پاٸلٹس کے ساتھ شام روانہ ہوگیا ۔
ملکِ شام پہنچے تو جنگ شدت اختیار کرچکی تھی ۔ عرب کی مشترکہ فضاٸیہ کے پاس
ابھی فضاٸی جنگ کا عملی تجربہ نہیں تھا اسی لیے پاکستانیوں کو دیکھ کر ان
کے حوصلے بلند ہوگٸے ۔ اب پاکستانیوں نے عربوں کو حوصلہ دیتے ہوٸے وہی
حکمتِ عملی اپناٸی جو جنگِ ستمبر میں خود اپناٸی تھی یعنی دفاعی پوزیشن کی
بجاٸے جارحانہ حکمتِ عملی ۔۔۔ اور دشمن کو اس کے گھر ہی میں گھس کر مارنا !
عرب افیسران پہلے منع کرتے رہے لیکن اسکوڈرن لیڈر سیف الاعظم نے انہیں
سمجھایا تو انہوں نے مگ طیارے ان پاکستانی پاٸلٹوں کے حوالے کردیے ۔ پہلے
دن ہی میرون اور سیف الاعظم نے سرحدوں پہ فضاٸی گشت کرکے اسراٸیلی فضاٸیہ
کا جاٸزہ لیا جو اس وقت بے حد مضبوط تھی ۔ لیکن ان دونوں پاٸلٹس کو یقین
تھا کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اسی لیے وہ اسراٸیل کو بھی دھول چٹادیں گے
۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ صبح ہوتے ہی تل ابیب کے قریب اسراٸیل کے ہواٸی
پر حملہ کیا جاٸے گا اسی لیے پاک فضاٸیہ کے شاہینوں نے اگلے دن کا انتظار
کیا اور سورج نکلتے ہی مشن پر روانہ ہوگٸے ۔ میرون اور سیف کے پاس روسی مگ
طیارے تھے جو شامی فضاٸیہ سے لیے گٸے تھے دونوں نے اڑان بھرتے ہوٸے جولان
کے پہاڑوں کا رخ کیا جہاں سے ہدف قریب تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں وہ انبیإ کے
شہر بیت المقدس کے اوپر سے گذر رہے تھے جہاں مسجدِ اقصیٰ کے آنسو یقیناً
انہوں نے محسوس کیے ہوں گے ۔ پھر وہ وقت بھی آگیا جب یہود کے جنگی جنون کا
اہم ہواٸی مستقر ان کے نیچے تھا ۔ اسراٸیل کو یقین ہی نہ تھا کہ عربوں میں
اتنی جرأت کہ وہ یہاں آسکیں اسی لیے راستے میں کوٸی مزاحمت بھی نہ ہوٸی اور
ایٸر بیس پر بھی سناٹا تھا ۔ ان پاٸلٹس کا مشن رن وے تباہ کرنا تھا تاکہ
بیس شام ،اردن اور لبنان پر حملوں کے لیے ناکارہ ہوجاٸے اسی لیے وقت ضاٸع
کیے بغیر دونوں نے بمباری شروع کردی ۔ دھماکے ہوتے ہی اسراٸیلی فضاٸیہ حرکت
میں آٸی اور ان پر جھپٹ پڑی لیکن یہ شاہین اپنا کام کرچکے تھے ۔ اسراٸیل نے
متبادل راستے سے اپنے طیارے بھیجے تو تل ابیب کی سرحد پر ایروِن نے
اسراٸیلی طیارہ مار گرایا !! راستے میں ایک اور مدبھیڑ ہوٸی جس میں ایک
جرمن نژاد یہودی بھی طیارے سمیت جھلس گیا ۔ اس کے بعد اسراٸیل سے جولان کی
وادی میں مقابلہ ہوا تو اسراٸیلیوں کے لیے وہ معرکہ یومِ موت بن چکا تھا جس
میں ایرون اور سیف الاعظم نے ناصرف اسراٸیلی طیاروں کو خاک میں ملایا بلکہ
اسراٸیلی برّی فوج کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ عربوں سے مقابلہ کررہی تھی
!! یہ شاندار اور تاریخی معرکہ انجام دینے کے بعد دونوں شاہین واپس آگٸے تو
فضاٸیں نعرہ تکبیر سے بلند تھیں ۔ گوکہ اسراٸیل نے چھ روزہ برّی جنگ میں
جدید ساز و سامان کے باعث برتری حاصل کرلی تھی لیکن فضاٸی محاذ پر اسراٸیل
کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اسی لیے اسراٸیل نے جنگ بندی پہ دستخط کردیے
کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگر ایسا ہی ہوتا رہا تو کوٸی بعید نہیں کہ عرب
مجاہدوں کے ہاتھوں سارے یہودی ہی مارجاٸیں جبکہ ابھی اسراٸیل نے عربوں کے
صحراٸے سینا سمیت کچھ علاقے ہتھیالیے تھے جس کے جواب میں عرب مجاہدوں کی
جانب سے شدید مزاحمت جاری تھی ۔ مصری فوج کی پسپاٸی کے بعد اب اخوان
المسلمون سمیت عالمِ اسلام کے رضاکار بھی تیار بیٹھے تھے ( یہود کتنا
مقابلہ کرتے علاقوں پہ قبضے کے بعد اُنکی جانیں بھی بہرحال جارہی تھیں اور
اہلِ یہود کو سب سے زیادہ خوف موت ہی کا ہوتا ہے !! ) ۔اسراٸیلی وزیرِ دفاع
موشے دیان نے کہا کہ " تل ابیب تک آنا اور پھر جولان میں فضاٸیہ کا بہادری
سے لڑنا سمجھ نہیں آتا ۔ یہ عربوں کی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی اڑان لگتی ہے
اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ شامی ، مصری یا اردنی نہیں بلکہ
پاکستانی تھے " ۔ " دجال نما" موشے دیان کی بات بھی درست تھی ( تقریباً یہی
بیان 1973 میں گولڈا ماٸر نے بھی دیا تھا جو مزید دھمکی آمیز تھا ) کیونکہ
یہ پاکستانی ہی تھے جو سیف الاعظم کی قیادت میں عرب مجاہدین کے ساتھ نیلے
آسمان تلے سینہ سپر تھے ۔ اور وہ مسیحی پاٸلٹ میروِن بھی اس جنگ میں عربوں
کا ہیرو بن کر ابھرا جسے تاریخ " ونگ کمانڈر میروِن لیزلی مڈل کوٹ " کے نام
سے جانتی ہے ۔
پاکستان کے یہ مسیحی فرزند جنہوں نے 1954 میں پاک فضاٸیہ میں شمولیت اختیار
کی، ایک بے مثال پاٸلٹ تھے جنھوں نے جنگ ستمبر اور پھر جنگِ دسمبر 1971 میں
دوبار ستارہٕ جرأت لیا اور وہ ایم ایم عالم کے بعد پاک فضاٸیہ کی تاریخ میں
دوسرے فرد بنے جنھیں بارِ دگر یہ اعزاز ملا ہو !!
ونگ کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل میرون لیزلی مڈلکوٹ 6 جولائی 1931 کو لدھیانہ کے
ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام پرسی مڈلکوٹ اور
والدہ کا نام ڈیزی مڈلکوٹ تھا۔ جب پاکستان بنا تو انکا گھرانہ بھی ہجرت کر
کے لاہور میں بس گیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھونی ہائی اسکول سے
حاصل کی اور بعد ازاں لارنس کالج گھوڑا گلی مری سے استفادہ حاصل کیا۔ انہوں
نے 1954ء میں پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔
1965 کی پاک بھارت جنگ میں یہ کراچی کے PAF بیس مسرور میں F86 جہازوں کا
ایک سکواڈرن کمانڈ کر رہے تھے۔ اسی جنگ کی ایک رات بھارتی جہازوں نے کراچی
پر بھرپور حملہ کیا۔ سکواڈرن لیڈر مڈلکوٹ نے ایک F86 طیارے میں take off
کیا اور آناً فاناً میں دشمن کے دو طیارے مار گرائے۔ ان طیاروں کے دونوں
بھارتی پائلٹ بھی مارے گئے۔ پوری جنگ کے دوران مڈلکوٹ نے ایسی بہادری کا
مظاہرہ کیا کہ ان کے زیر کمان افسر اور جوان بھی انکی دیکھا دیکھی شیروں کی
طرح لڑے۔ جنگ کے اختتام پر انکی بہادری کے صلے میں انہیں ستارہ جرأت سے
نوازا گیا۔
1967 میں عرب اسراٸیل جنگ کے بعد اردنی فضاٸیہ نے انہیں اپنے اسکوڈرنز کی
تربیت کے لیے رکھ لیا اور وہ اردنی اور لبنانی فضاٸیہ کی تربیت کرتے رہے ۔
اسی دوران دسمبر 1971 آگیا ۔ میرون کو چونکہ اپنے دیس پاکستان سے محبت تھی
چنانچہ انہوں نے اردنی حکام سے اجازت لی ۔ جارڈن ایٸر چیف نے انھیں روکا تو
ایرون نے صاف منع کردیا اور کہا
" آپ سب کی محبتوں کا شکریہ لیکن ابھی میرا وطن مجھے پکار رہا ہے ۔ وہاں
حالات شدید خراب ہیں اسی لیے میری غیرت اجازت نہیں دیتی کہ میں یہاں امن و
سکون سے رہوں "
وہ 11 دسمبر 1971 کو وطن واپس آٸے ۔ اور آتے ہی مسرور بیس کراچی میں دوبارہ
اپنا ونگ جواٸن کرلیا ۔ بھارت نے کچھ دن قبل ہی کراچی پر حملہ کیا کرکے
یہاں ریفاٸنری میں بمباری کی تھی اسی لیے اس کے حوصلے بلند تھے چنانچہ پاک
فضاٸیہ نے فیصلہ کیا کہ 1965 کی طرح ایک بار پھر بھارت کے خلاف جارحانہ
اقدام اٹھایاجاٸے اور اس کے شہر جام۔نگر کے ہوٸی اڈے کو تباہ کرکے بھارتی
پرواز کی ناکہ بندی کی جاٸے ۔ 1965 میں بھی بھارت نے کراچی پر حملہ کیا تھا
تو پاک فضاٸیہ نے اپنے اس شاہین میروِن مڈل کوٹ کو سیبر طیارے کے ساتھ
بھیجا تھا اور انھوں نے بھارت کے دو طیارے کراچی کے ساحل میں گرا کر "
محافظِ کراچی" کا لقب حاصل کیا تھا اور اسی کارنامے پر انھیں ستارہ جرأت
بھی دیا گیا تھا ۔
12 دسمبر 1971 کو پاک فضاٸیہ نے جنگِ ستمبر والی حکمتِ عملی اپناتے ہوٸے
جارحانہ اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ونگ کمانڈر میرون مڈل کوٹ کو امرتسر
کے مشن پر بھیجا گیا جہاں ان کا ٹارگٹ رن وے اور ریڈار تباہ کرنا تھا ۔ یہی
وہ امرتسر کا ہواٸی اڈا تھا جہاں پر نصب ریڈار سسٹم سے بھارت پاکستانی
فضاٸیہ کی نقل و حرکت دیکھتا تھا ۔ میرون نے مشن قبول کیا اور وہ اپنی
فارمیشن کے ساتھ روانہ ہوگٸے ۔ امرتسر کے ہواٸی اڈے پر حفاظتی دستے موجود
تھے لیکن میرون کی جھپٹ نے ان سب کو للکارتے ہوٸے جام نگر کے " شیطان خانے
" کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنایا ۔ تقریباً چار منٹ میں آپریشن مکمل ہوگیا تو
میرون کامیاب و کامران واپس پلٹے ۔ وہ ابھی بحیرہ عرب سے گذر ہی رہے تھے کہ
ان کی بھارتی جہازوں سے مدھ بھیڑ ہوگٸی ۔ نیچے گہرا سمندر تھا اور اوپر آگ
کا فضاٸی معرکہ ! میرون نے ہتھیار نہ ڈالے بلکہ بھارتی جہازوں کا تنہا
مقابلہ کرنے لگے ۔ چار بھارتی طیاروں نے انھیں گھیر لیا تھا مگر ہر بار بار
وہ فضاٸی ناکہ توڑ جاتے ۔ اسی دوران ان کے جہاز کو بھارتی پاٸلٹ بھوشن سونی
نے نشانہ بنالیا ۔ اب میروِن کا جلتا ہوا طیارہ فضإ میں قلابازیاں کھانے
لگا تو میرون نے Eject کرلیا ۔ اور سمندر میں اپنے پیراشوٹ سمیت آگٸے لیکن
وہ سمندر ہی نہیں بلکہ شارک مچھلیوں کی مضبوط کمین گاہ تھی ۔ میرون کو آتے
دیکھ کر ساری شارک مچھلیاں ان پر ٹوٹ پڑیں اور یوں ونگ کمانڈر اپنا کامیاب
فرض نبھا کر واپسی پر شارک کا نوالا بن گٸے لیکن آسمان پر موجود بھارتی
طیاروں نے بھی ان کی عظمت کی داد دی کہ انھوں نے پاک وطن کی خاطر خود کو
سمندر کی اور شارک کی نذر کردیا لیکن بھارت کے ہاتھوں جنگی قیدی نہ بنے ۔۔
!! ( یہی ہماری ریت ہے کہ ہم دشمن کی قید میں Tea was Fantasitic نہیں کہتے
! )
میرون کی خبر جیسے ہی پاکستان میں پہنچی تو اہلِ پاکستان کے ساتھ ساتھ
اردن، لبنان اور شام میں بھی افسردگی چھا گٸی بلکہ اردن کی حکومت نے کہا
تھا کہ اگر میرون کی باقیات مل جاٸیں تو وہ انھیں دے دی جاٸیں یا ان کے
جسدِ خاکی کو اردنی پرچم میں لپیٹ کر سپردِ خاک کیا جاٸے ۔
یوں پاکستان کا یہ مسیحی سپوت جس نے بھارت اور اسراٸیل کو ان ہی کے " گھر
میں گھس کر مارا" تھا تاریخ میں اپنا خون دے کر امر کرگیا ۔
جنگ کے بعد ان کی اس بے مثال بہادری پر ان کو ایک دوسرے ستارہ جرأت سے
نوازا گیا۔ مڈلکوٹ کی قربانی پر اردن کے شاہ حسین نے نہ صرف ان کے اہل خانہ
کے ساتھ ذاتی طور پر تعزیت کی بلکہ یہ درخواست بھی کی کہ اگر ان کے جسم کو
پاکستان کے قومی پرچم کے ساتھ دفنایا جائے تو اس کے ساتھ اردن کے پرچم کو
ان کے سر کے نیچے رکھا جائے۔ اس اعزاز کی وجہ 1967ء کے دوران میں اسرائیل
کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات تھیں
میرون لیزلی مڈلکوٹ نے 27 ستمبر 1957 کو جینی ویگاس سے شادی کی جن سے 21
اکتوبر 1959 کو ایک بیٹی پیدا ہوئی۔این لیزلی۔ یہ بچی جب 8 سال کی تھی تب
ایک دن اسے اسکول کے ایک بچے نے کہا "تمہارا نام عجیب ہے آپ پاکستانی نہیں
ہو آپ اس ملک کو چھوڑ دو"۔ یہ روداد سن کر بچی کے والد نے کہا کہ پاکستانی
جھنڈے میں سبز حصہ مسلمانوں کی علامت ہے اور سفید حصہ لیزلی کے لیے ہے.
اور سمندر کو بھی اس جاں نثار ہیرو سے عقیدت کہہ لیں کہ آج تک اس کی لاش
واپس نہ کی۔
اس وطن پہ قربان ہونے والے ہر فرد کو سلام ہے۔
|