کیپٹن شیر خان شہید کی بہادری اور یادگار کی بے حرمتی

پاکستان میں 9مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد یہ دن ملکی تاریخ میں سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شرپسندوں نے جس طرح سرکاری اورحساس املاک وتنصیبات کو شدید نقصان پہنچانے کے علاوہ ملک کے تاریخی اثاثے تباہ و برباد کئے اوراس سے بھی بڑھ کر جس طرح شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی اس کو دیکھتے ہوئے محب وطن قوم کبھی بھی شرپسندوں کو معاف نہیں کرے گی اور نہ ہی یہ دل سوز واقعات بھلائے جاسکیں گے۔ پرتشدد واقعات کے دوران جب ایک شرپسند کی جانب سے کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے مجسمے کی بے حرمتی کی تصاویر اور ویڈیو سامنے آئی تو ہرپاکستانی کا دل چھلنی ہوگیا اورخون کے آنسو رونے لگا،ان پرُمذمت واقعات پر شہداء کی روحیں بھی تڑپ اٹھی ہیں۔شہداء کی مائیں شرپسندوں سے پوچھ رہی ہیں کہ کیا انھوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے اسی لئے وطن پر قربان کئے تھے؟شہداء کے یتیم بچے اوربیوائیں شرپسندوں سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس دن کے لئے ان کے پیاروں نے اپنا لہو بہایا تھا؟ان سوالات کا جواب شائد ان بے حس شرپسندوں کے پاس نہ ہوگا لیکن ان کے بے ہودہ عمل کی وجہ سے پوری قوم کا سر ان جوانوں کے سامنے جھک گیا ہے جو اپنے ماں باپ،بیوی بچوں،بہن بھائیوں اوررشتہ داروں کو چھوڑ کر تپتی ریت اورخون جما دینے والے برفیلے پہاڑوں پر اس گھر کی حفاظت کررہے ہیں جہاں ایسے بے حس لوگ بھی بستے ہیں جو اپنے محسنوں کی قربانیوں کو بھلا دیتے ہیں۔

کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی یادگار کی بے حرمتی کے واقعہ کے بعدسوشل میڈیاصارفین کی جانب سے ایک ویڈیوکلپ تیزی سے وائرل ہورہا ہے جس میں کارگل کی جنگ میں حصہ لینے والے ایک بھارتی کمانڈرکی جانب سے کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی جرات اور بہادری کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔بھارتی فوج کی جانب سے کبھی بھی کھلے لفظوں میں پاکستانی فوج کی بہادری کی تعریف نہیں کی گئی اور ایسا دنیا میں کبھی بھی کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملا کہ کوئی اپنے دشمن ملک کی فوج کی تعریف کرے لیکن معرکہ کارگل ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاکستان کے کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی بہادری اور جرات دیکھ کر بھارتی کمانڈر بریگیڈئیر پرتاپ سنگھ بھی ان کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے جس پر انھیں اپنی سرکار،عوام اور فوج کی جانب سے زبردست تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن بھارتی کمانڈر پرتاپ سنگھ نے جب بھی انٹرنیشنل یا بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیا تو برملا اس بات کا ظہار کیاکہ”جب یہ جنگ(کارگل کی جنگ) ختم ہوئی تو میں اس افسر(کرنل شیر خان شہید) کا قائل ہو چکا تھا،میں سن71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں،میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا،باقی سارے پاکستانی فوجی کرتے پاجاموں میں تھے اور وہ تنہا ٹریک سوٹ میں تھا۔“بھارتی مصنفہ ”رچنا بشٹ راوت“ کارگل پر شائع ہونے والی اپنی کتاب ”کارگل اَن ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار“ میں بھی کیپٹن شیر خان شہید کی دلیری کے بارے میں لکھ چکی ہیں۔

سن1999 میں معرکہ کارگل کے دوران کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ گلتری میں 15سے 17ہزارفٹ بلند اور برف پوش پہاڑوں پر پانچ فوجی چوکیاں قائم کیں۔ 7اور 8جون کی درمیانی رات جب دشمن نے ان کی پوسٹ تک پہنچنے کی کوشش کی تو انھوں نے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور چھاپہ مار کارروائیوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے کئی فوجیوں کو جہنم واصل کردیا جس پر دشمن فوج پر ان کی ہبیت طاری ہوگئی۔5جولائی کو دشمن نے دو بٹالین کی نفری اور توپخانے سے کیپٹن کرنل شیر خان کی پوسٹ پر کئی اطراف سے حملہ کرکے کچھ حصے قبضے میں لے لئے۔کیپٹن شیر خان تمام تر بے سروسامانی اور قلیل سپاہیوں کے باوجود وہ دشمن پر بے خوفی سے ٹوٹ پڑے اور کھوئے ہوئے علاقے پر دوبارہ قبضہ جما لیا۔کیپٹن شیر خان بہادری سے دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو ماررہے تھے اس دوران ان کا ایمونیشن ختم ہوگیالیکن وہ پیچھے نہ ہٹے اور دشمن کے سامنے ڈٹے رہے۔بھارتی فوجیوں نے ان کے فولادی جسم پر گولیاں برسانا شروع کردیں، مشین گن کے فائر سے وہ شدید زخمی ہوگئے اوراللہ اکبر کا ورد کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔بھارتی کمانڈر ان کی دلیری پر عش عش کراٹھا اور بلند آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ”اس جوان کے جسد خاکی کی بے حرمتی نہ کرنا،یہ بہت بہادر افسر ہے۔“کیپٹن شیر خان شہید کو بہادری پر پاک فوج کے سب سے بڑے اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ کیپٹن شیر خان شہید کے مجسمہ کی بے حرمتی کرنے والے بدبخت نے اگرچہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے لیکن قوم کبھی بھی ان لوگوں کومعاف نہیں کرے گی جواپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھلا کر ان کی یادگار کی بے حرمتی کرتے ہیں کیونکہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
 

Dr Jamshed Nazar
About the Author: Dr Jamshed Nazar Read More Articles by Dr Jamshed Nazar: 48 Articles with 28065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.