تعلیم ہی اصل فرق ہے


لوگ پوچھتے ہیں کہ تعلیم کیا ہے ۔ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ جی میرا بیٹا بہت بڑا لکھا اور تعلیم یافتہ ہے۔ یا میرے بیٹے نے بی اے کر لیا ہے اب تو وہ بہت تعلیم یافتہ ہے۔ بہر حال جتنے لوگ ملتے ہیں وہ تعلیم کو اپنے اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اہل فکر اور اہل علم نے بھی اسے کئی انداز سے بیان کیا ہے۔ کوئی ایک تعریف دوسرے سے نہیں ملتی مگر عملی طور پر سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ہر وہ عمل جو آپ کو بہتر زندگی کزارنے کا درس دیتا ہے تعلیم ہے۔ وہ عمل جو آپ کی ذہانت کو جلا بخشتا ہے تعلیم ہے۔ میں کلاس میں بچوں کو کہتا ہوں کہ جب آپ کسی چیز کو دیکھ کر یہ سوچنے لگو کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے اور کس طرح ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ میں ایک سوچ جنم لے چکی ہے جسے آپ تعلیم کہتے ہیں۔ جس طرح آپ ایک بندوق لے آئیں اور آپ اسے چلانا نہ جانتے ہوں تو آپ شکاری نہیں کہلا سکتے۔ چنانچہ کتابیں پڑھنا اور اور انہیں سجا کر رکھنا یا بغیر سوچے سمجھے کسی طرح کوئی ڈگری لے لینا،بھی آپ کو تعلیم یافتہ نہیں بناتا۔ تعلیم ہر لحظہ عمل کی محتاج ہے۔جہاں تربیت کی کمی ہے وہاں تعلیم نہیں ہے۔ تعلیم عملی تربیت کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔تعلیم سکولوں اور ڈگریوں کی بھی محتاج نہیں۔کیونکہ تعلیم تو سیکھنے کا عمل ہے جو کسی بھی طریقے سے ممکن ہے۔موجودہ ماڈرن تعلیم کا بانی جان ڈیوی کہتا ہے کہ تعلیم ایک تجربہ ہے جس سے کئی تجربے جنم لیتے ہیں اور ہر تجربہ کئی نئے تجربوں کو جنم دیتا ہے۔ چنانچہ تعلیم تجربات کا ایک تسلسل ہے جس سے ہم بہتر سے بہتر چیز سیکھتے ہیں۔

تعلیم ہمیں ایک اچھا شہری اور ایک اچھا انسان بننے میں مدد گار ہوتی ہے۔ ہمارے اٹھنے ہمار بیٹھنے، ہمارے بات کرنے، ہمار کھانے ، ہمارے پینے ، ہمارے دوسروں سے سلوک کرنے، غرض ہر چیز میں ایک نفاست اور پہتری نظر آتی ہے۔تعلیم کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان اور معاشرے دونوں پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔پڑھا لکھا شخص معاشرے میں بہتر کردار کا حامل ہوتا ہے ۔ تعلیم اشخاص کی صلاحیتیں نکھار کر انہیں معاشرے کی بہتر خدمت کے قابل بناتی ہے۔یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو ا یک ا جتماعی سوچ سے مالا مال کرتی ہے اور اسے اپنے اجداد کی روایات اور رسم ورواج سے آشنا کرتی ہے۔کہتے ہیں پہترین راستہ وہ ہے جو آپ بزرگوں کے نقش قدم پر طے کرتے ہیں۔ یہ تعلیم اور یہ کتابیں ہی بزرگوں کے وہ نقش قدم ہیں جو ہمیں اچھی اور بہتر راہ پر گامزن کرتے ہیں۔تعلیم آپ پر کھل جا سم سم کی طرح مواقع کے تمام دروازے کھولتی ہے ایسے مواقع جو تعلیم کے بغیر آپ کو میسر آ ہی نہیں سکتے۔تعلیم آپ کو معلومات اور کسی چیز کو اچھے انداز میں کرنے کا ہنر دیتی ہے۔تعلیم نوجوانوں کے لئے
1 ۔ روزگار کی سہولت آسان کرتی ہے۔
2 ۔ کمانے کی بہتر صلاحیتیں عطا کرتی ہے۔
3 ۔ ان کو بہتر طرز زندگی دیتی ہے۔
4 ۔ دنیا جہاں کی معلومات سے بہرہ ور اور ان تک رسائی عطا کرتی ہے۔

معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے تعلیم معاشرے میں خاموش انقلاب لاتی ہے۔ لوگ اپنی ذمہ داریاں سمجھتے، ایک دوسرے کا احترام کرتے اورہر طرح کی معاشرتی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔دو قریبی عزیزوں میں اگر رہن سہن کا فرق نظر آتا ہے تو حقیقت میں یہ فرق تعلیم کا ہی ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ مجموعی طور پر تعلیم معاشرے کی فلاح میں بھرپور حصہ ڈالتی ہے۔تعلیم جرائم کو کم کرتی ہے۔ تعلیم انسانوں کو اچھے برے کی تمیز اور معاشرے میں ان کے اچھے کردار کی متقاضی ہوتی ہے۔تعلیم خاندان اور معاشرے میں ایک دوسرے کے احترام کی طالب ہوتی ہے۔تعلیم ہر لحاظ سے انسان اور معاشرے دونوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہذب معاشروں میں تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔

نظام الملک طوسی ،سلجوق عہد کا ،ایک مشہور وزیر تھا۔ اس نے مدرسہ نظامیہ کی بنیاد رکھی اور اسی نام سے اپنے دور میں پورے ملک میں بہت سی درسگائیں بنوائیں۔دمشق میں دارالحکمت کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ بنایا جو اپنے وقت کی ایک بہترین یونیورسٹی تھی ۔ جس کے انداز کو آج بھی مغرب کی درسگائیں اپنائے ہوئی ہیں۔ کسی نے بادشاہ سے طوسی کی شکایت کی کہ وہ تعلیم پر پیسے برباد کر رہا ہے اور دفاع پر توجہ نہیں دے رہاتو بادشاہ نے پوچھا کہ طوسی تم نے ملک کا سارا سرمایہ ان اداروں پر خرچ کر دیا ہے اور کوئی قلعہ وغیرہ نہیں بنوایا۔ دشمن کے حملے کی صورت ہم کیا کریں گے تو طوسی نے جواب دیا کہ میں نے وہ قلعے بنائے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہیں گے جنہیں کوئی دشمن کسی بھی صورت مسمار نہیں کر پائے گا اور جن کی وجہ سے میں اور آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

عوام کی یاد داشت کمزور تو ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ انہیں 1973 کا آئین یاد نہ ہو۔وہ آئین بہت عرصہ جاں بلب رہا۔ روز روز کی غیر ضروری حکومتی ترامیم نے اس کی حالت بگاڑ کر رکھ دی تھی مگراب اسے فوت ہوئے بھی چند ماہ گزرچکے ہیں۔ اس مرحوم آئین کے مطابق تعلیم حکومت کی ذمہ داری تھی۔ مگر عرصہ ہوا حکومت نے اپنی جان تعلیمی ذمہ داری اور آئین دونوں سے چھڑا کر تعلیم کو کاروباری طبقے کے سپرد کر دیا ہے۔ آج تعلیم ایک کاروبار ہے اور روز بروز مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیوشن، رہائش اور ان سے دوسرے جڑے اخراجات اس قدر زیادہ ہو گئے ہیں کہ عام آدمی کی رسائی میں اب تعلیم نہیں رہی۔خصوصاً پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں تو عام آدمی اور اس کے خاندان کے لئے ایک بوجھ سے کم نہیں۔سرکاری تعلیمی ادارے گو پہلے سے مہنگے ہو گئے ہیں مگر پھر بھی غنیمت ہیں۔ چونکہ آج تعلیم کی اہمیت کو لوگ سمجھ رہے ہیں اس لئے اپنے بچوں کے لئے اخراجات کا بوجھ مجبوری میں اٹھا رہے ہیں ۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ ایک عام شہری اور ایک کھاتے پیتے با اثر شہری میں فرق فقط تعلیم کا ہے اور کچھ نہیں۔ سوچتا ہوں کہ کبھی اس مرحوم آئین کو زندہ کرنے کی کوئی کوشش ہوئی اور اس ملک میں کوئی اچھی اور اصولی حکومت آ گئی تو شاید کسی کو ان بے اثر اور کم پڑھے مجبور شہریوں کا خیال آ جائے تو آئین کے مطابق عام لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری شاید حکومت اٹھا لے مگر آج کے اس دور میں جب اہل اقتدار کو ہوس اقتدار سے فرصت ہی نہیں توایسے میں کس کو ان زندہ مزاروں کا خیال آتا ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501436 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More