اعتدال پسند رویوں سے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں جیسے چہل
قدمی ، سائیکل چلانا ، یا کھیل کود وغیرہ انسانی صحت کے لئے انتہائی مفید
ہیں۔ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ہر عمر میں، جسمانی طور پر فعال رہنا انسانی
صحت کے لیے بے شمار ثمرات لاتا ہے اور مختلف امراض سے بچاؤ سمیت شخصیت سازی
میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ خود کو جسمانی طور پر
چاق و چوبند یا فٹ رکھنے کے لیے کسی جم وغیرہ کا رخ ہی کریں بلکہ اپنے
روزمرہ امور میں بعض "عادات" کو مستقل اپنالیا جائے تو تب بھی کافی فرق
پڑتا ہے ،ان میں یومیہ چہل قدمی اور سائیکلنگ بھی شامل ہیں۔ورلڈ ہیلتھ
آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق، پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کے لئے
محفوظ بنیادی ڈھانچہ بھی مساوی صحت کے حصول کا ایک راستہ ہے. ایسے افراد،
جو اکثر نجی گاڑیوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ہیں،اُن کے لیے پیدل
چلنا اور سائیکل چلانا نقل و حمل کی ایک شکل فراہم کرسکتا ہے جبکہ دل کی
بیماری، فالج، کچھ کینسر، ذیابیطس اور یہاں تک کہ موت کے خطرے کو کم کرسکتا
ہے. اس طرز کا بہتر فعال نقل و حمل نہ صرف صحت مند ہے بلکہ یہ کم خرچ بھی
ہے۔دوسری جانب پیدل چلنے اور سائیکل چلانے والے لوگوں کی ضروریات کو پورا
کرنا شہری آبادی میں بڑھتے ہوئےاضافے کو روکنے سمیت فضا کے معیار اور سڑکوں
کے تحفظ میں بھی انتہائی مددگار ہے۔
سائیکلنگ کا زکر چل نکلا تو سائیکل کی ایک اپنی انفرادیت اور طویل تاریخ ہے،
، جو دو صدیوں سے استعمال میں ہے۔ یہ نقل و حمل کا ایک آسان ، سستا ، قابل
اعتماد ، صاف اور ماحولیاتی طور پر موزوں پائیدار ذریعہ ہے جو ماحولیاتی
انتظام اور صحت کو فروغ دیتا ہے ۔سائیکل کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے بھی
لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال 3 جون کو دنیا میں سائیکل کا عالمی دن منایا
جاتا ہے۔اس میں اسٹیک ہولڈرز کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ پائیدار
ترقی کو فروغ دینے، بچوں اور نوجوانوں کے لئے جسمانی تعلیم کومضبوط بنانے،
صحت کو فروغ دینے، بیماری کی روک تھام، رواداری، باہمی تفہیم اور احترام کو
فروغ دینے اور سماجی شمولیت اور امن کی ثقافت کو آسان بنانے کے ذریعہ کے
طور پر سائیکل کے استعمال پر زور دیں۔ سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو
سائیکل کے کئی فوائد ہیں۔ اول تو ، سائیکل سفر کا ایک اچھا، سستا اور پر
ہجوم ٹریفک میں تیز ذریعہ ہے۔ دوسرا ،سائیکل صحت کے لیے بھی مفید ہے کیونکہ
سائیکل چلانا ایک بہترین ورزش بھی کہلاتا ہے ۔ تیسرا پہلو بہت دلچسپ ہے کہ
ہر وقت موبائل فون کی سکرین دیکھنے سے بہتر ہے کہ کچھ لمحات کے لیے سائیکل
چلائی جائے اور فون کو چند گھڑی کے لیے خود سے دور کر دیا جائے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں بھی لوگ بہت شوق سے سائیکل پر دفاتر اور
بازاروں کا رخ کیا کرتے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ وسائل بڑھنے کے ساتھ
سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ، موٹرسائیکل کے ساتھ اب گاڑی بھی نقل
و حمل کا ایک عام ذریعہ بن چکی ہے اور سائیکل سواری کا رجحان کم ہوتے ہوئے
انتہائی محدود ہو چکا ہے۔سائیکل سواری کا ایک فائدہ اگر پیسوں کی بچت تھا
تو دوسرا فائدہ بہتر صحت بھی تھا ، مگر آسائش کی خواہش نے سائیکل کے
استعمال میں خاطر خواہ کمی لائی ہے۔
دوسری جانب، چین میں سائیکل سواری نےجدید رجحانات اپنائے ہیں اور آج بھی
چینی لوگوں کا سائیکل کے ساتھ ایک نہ ٹوٹنے والا رشتہ قائم ہے۔ 1970 اور
1980 کی دہائیوں میں، سائیکل چینی لوگوں کے لیے آمد و رفت کا سب سے بنیادی
ذریعہ تھی اور چین کو "سائیکلوں کی سلطنت" کہا جاتا تھا۔ 1990 کی دہائی سے
رواں صدی کے اوائل تک، ہزاروں گھرانوں میں ذاتی گاڑیاں داخل ہونے لگیں، اور
سائیکلز آہستہ آہستہ شہر کی سڑکوں سے کم ہوتی چلی گئیں۔لیکن اچھی بات یہ ہے
کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران لوگوں میں ، ماحولیاتی تحفظ اور صحت کے بارے
میں بڑھتی ہوئی بیداری کے ساتھ ساتھ "سائیکل" واپس سڑکوں پر آ چکی ہے ،
تاہم، اب اس کا رنگ روپ تبدیل ہوا ہے اور یہ رنگ برنگی شیئرڈ سائیکلز اور
ہر طرح کی روڈ بائکس اور ماؤنٹین بائیکس وغیرہ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
اس وقت چین میں صورتحال یہ ہے کہ سائیکل چلانا ایک نیا فیشن بنتا جا رہا ہے،
لوگوں کی اکثریت اسے تفریحی سرگرمی اور کھیل کے طور پر لے رہی ہے۔ شہریوں
کی ایک بڑی تعداد نے کووڈ۔19 کے انسدادی اقدامات کی وجہ سے سائیکل کو اپنے
مختصر فاصلے کے سفر کے لیے ایک اہم نقل و حمل کے آلے کے طور پر دیکھا ہے۔
آج، سائیکلوں کی آن لائن اور آف لائن فروخت دونوں میں اضافہ ہورہا ہے اور
نہ صرف بچوں کی سائیکلوں، روڈ سائیکلوں اور فولڈنگ سائیکلوں کی فروخت میں
نمایاں اضافہ ہوا ہے بلکہ سائیکل چلانے کے لیے مخصوص لباس کی فروخت بھی
نمایاں طور پر بڑھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیادہ لوگ سائیکل چلانا پسند
کرنے لگے ہیں۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ سائیکل کے خریداروں میں زیادہ
تعداد 30 سے 49 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور بڑے شہروں میں سائیکل
فروخت کرنے والے اسٹورز بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی مصروف نظر
آتے ہیں ،ویسے بھی چین سائیکل تیار کرنے اور صارفین کے اعتبار سے دنیا کے
سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔
یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران چینی شہروں میں خصوصی
بائیک لین کی تعمیر اور ٹریفک کے سست نظام نے سڑکوں پر سائیکلوں کی فیشن سے
بھرپور واپسی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سائیکلنگ چین میں ایک نیا ابھرتا
ہوا فیشن ہو گا جس سے نہ صرف ٹرانسپورٹ کے سبز اور کم کاربن طریقے کو مزید
فروغ ملے گا بلکہ سست ٹریفک کے نظام میں بھی بہتری آئے گی۔پاکستان میں بھی
ٹریفک نظام میں معمولی سی بہتری اور شہریوں کی حوصلہ افزائی سے سائیکل
چلانا طرز زندگی کا ایک نیا رجحان بن سکتا ہے اور سماجی ترقی کی بہتر
نمائندگی کر سکتا ہے۔
|