طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان

زندگی جینا ہر کسی کا حق ہے۔زندگی میں خوشی پر ہر کسی کا حق ہوتا ہے۔دنیا میں بچے ہوں،بڑا ہوں،مرد ہو عورت ہوں سب کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مجھےکسی نہ کسی طریقے سے خوشی ملے اور میں خوشی سے زندگی جی سکوں۔ہر کوئی اس کوشش میں ہوتا ہے کہ بس خوشی کی زندگی حاصل کرسکوں۔والدین کے جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو ان کے دل میں یہ باتیں جنم لیتے ہیں کہ بچے یا بچی کا شادی کرنا ہے اسے بہتر مستقبل دینا ہے۔اور یہ والدین کی فرض ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل روشن مستقبل کیلئے کوشش کریں۔سب والدین یہ چاہتے ہیں کہ میرے بیٹی کی شادی وہاں ہوجائے جہاں ان کو بہت ساری خوشیاں ملے۔جہاں ان کو سکون کی زندگی نصیب ہوں۔والدین جب رشتے کرتے ہیں تو بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔اور وہ اس لئے کہ یہ معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔شادی کا فیصلہ کرنا اپنے ساری عمر کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔یعنی جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کی گھر کی ہوجاتی ہے اس گھر سے پھر ان کا جنازہ نکلتی ہے۔والدین کو یہ ڈر ضرور ہوتا ہے کہ کہیں لڑکی کا گھر برباد نہ ہوجائے،کہیں لڑکی کا گھر جہنم نہ بن جائے۔کہیں سسرال میری بیٹی کیلئے زحمت نہ بن جائے۔اور ان سارے معاملات میں سب سے برا چیز طلاق ہوتی ہے۔جب کسی لڑکی کو طلاق دیا جاتا ہے تو ان کی ساری عمر برباد ہوتی ہے۔ان کی ساری عمر کی خوشیاں،ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہے۔اج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ طلاق کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔اس کی کچھ وجوہات ہیں۔جن سے ہر کوئی با خبر ہے لیکن کوئی توجہ ہی نہیں دیتا۔میں سمجھتا ہوں اج کل طلاق کا سب سے بڑا وجہ موبائل فون ہے۔موبائل فون طلاق میں بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔اج کل ہر لڑکی کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور ہوتا ہے چاہے وہ لڑکی شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ہوں۔والدین کی یہ خواہش تو ضرور ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی سسرال میں خوش ہوں۔لیکن والدین یہ کبھی نہیں سوچتے کہ میرے بیٹی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔یہ موبائل فون یہی والدین ہی ان کو فراہم کرتے ہیں۔والدین کو پتہ ہے کہ موبائل فون سے کیا کیا کام لئے جاتے ہیں۔والدین کو سب سے پہلے اپنے بچوں کو شادی کے بارے میں بتانا چاہیے۔ان کو سمجھانا چاہئے کہ سسرال میں ایسے زندگی گزارنی چاہئیے۔بعض مائیں اپنے بیٹیوں کو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ سسرال میں سسر سے ایسے پیش آنا چاہیئے۔یعنی ان کو کچھ اچھے باتیں نہیں سکھائی جاتی بلکہ ایک غلط قسم کی باتیں سکھائی جاتی ہے۔اور وہ اس لڑکی کیلئے طلاق کی وجہ ثابت ہوتی ہے۔طلاق گھر میں صحیح ماحول فراہم نہ کرنے سے رونما ہوتا ہے۔جب گھروں میں جنگ جھگڑے شروع ہوتے ہیں تو اس میں پھر طلاق کی زحمت آتی ہے۔والدین کو چاہیئے کہ سب سے پہلے تو اپنے بچوں کو موبائل فون سے دور رکھیں دوسرا یہ کہ ان کو ایک دوستانہ ماحول فراہم کرے تاکہ بچے اپنے دل کی باتیں والدین کے ساتھ شیر کرسکے۔والدین کو اپنے بچوں کی شادیاں سوچ سمجھ کر کر لینی چاہیئے۔یہ ایک دن کی بات نہیں ہوتی،ایک سال کی بات نہیں ہوتی بلکہ عمر بھر کی باتیں ہیں۔بچے تو بچے ہوتے ہیں ان کو کیا خبر کہ کون میرے لئے بہتر ہے کونسا گھر میرے لئے بہتر ہے کونسا رشتہ میرے لئے بہتر ہے۔والدین جب سوچ سمجھ کر اور اپنے فرائض صحیح طریقے سے ادا کر اپنے بچوں کی شادیاں کرائیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ انشاء اللہ کبھی بھی طلاق کی باتیں سامنے نہیں آئے گے۔سب سے برا عمل زندگی میں طلاق ہے۔لڑکی کو ایک طرف طلاق ہوجاتی ہے۔تو دوسری طرف وہ لڑکی دوسری شادی کیلئے اہل نہیں ٹہرائی جاتی سب معاشرے میں اس کو برا بھلا کہتے ہیں کہ یہ تو طلاق یافتہ ہے۔اور مختلف قسم کے بے ہودہ الفاظ ان کے میں نکالتے ہیں۔اور یہ طلاق یافتہ لڑکی پھر والدین کے گھر میں عمر بھر آنسو روتی ہے۔ان کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔کوئی بھی اس لڑکی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے حتیٰ کہ ان کے والدین بھی ان کی صحیح قدر نہیں کرتے۔اگر لڑکی اکیلی ہوتی ہے تو پھر بھی صحیح لیکن اگر ان کے پاس بچے ہوتے ہیں تو وہ پھر قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے۔وہ لڑکی اپنا غم تو اپنا بچوں کیلئے دن رات روتی رہتی ہے۔ان کے روزمرہ ضروریات کے بارے میں سوچتی ہے۔کیونکہ لڑکی کے والدین تو ان جا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی ان کے گھر کے اپنے ضروریات زیادہ ہوتی ہے۔تو پھر یہ بچے کبھی کباڑ خانوں میں جاتے ہیں اور کبھی بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور یوجاتے ہیں۔تو میں سمجھتا ہوں کہ ان والدین کو چاہیئے کہ اس طرح کی باتوں سے اس طرح کے واقعات سے سو مرتبہ سوچنا چاہئے کہ بیٹی کا رشتہ کہاں کرنا ہے۔

Sadiq Anwar Mian
About the Author: Sadiq Anwar Mian Read More Articles by Sadiq Anwar Mian: 10 Articles with 4391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.