تسلیم و رضا

چودھویں صدی کے مسلم حکمران محمد بن تغلق کا ظلم و بربریت کا دور جاری تھا بادشاہ کا ظلم و ستم اپنے عروج پر تھا محمد بن تغلق ایک چالاک ذہین عیار شخص تھا جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر حکمرانی کر رہا تھا بادشاہ کی خوفناک سزاں اور دہشت پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے سارا ہندوستان اس کے سامنے غلاموں کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا جب بادشاہ کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو جہاں تصوف کے اہل حق شیخ شہاب الدین احمد جام نے بادشاہ کے ظلم کے خلاف نعرہ حق بلند کیا اور کہا محمد بن تغلق عادل شاہ نہیں بلکہ خونی شاہ ہے اور بہت ظالم اور بربریت پسند ہے شیخ جام احمد کا تعلق خراسان سے تھا آپ ترک وطن کر کے دہلی میں آکر آباد ہو گئے تھے آپ ایک باکمال درویش بے مثال تھے آپ کا شمار ہندوستان کے اکابر متوکل صوفیا کرام میں ہو تا تھا مظلوم رعایا پر ظلم و ستم دیکھ کر محمد بن تغلق قاضی کی عدالت میں پیش ہوا اور قہرآلود لہجے میں بولا بادشاہ کو اِس طرح دیکھ کر مفتی لرز کر رہ گیا احتراما اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور مودب لہجے میں بولا شہنشاہ عالم آپ خیریت سے ہیں اِس طرح عدالت میں پیش ہو گئے ہیں تو محمد بن تغلق غضب ناک لہجے میں بولا مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے شیخ زادہ جام احمد مجھ جیسے عادل حکمران کو ظالم مغرور بادشاہ کہا ہے اور کہاہے کہ میں انصاف نہیں عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہوں آپ اس شیخ زادے کو عدالت میں طلب کریں اور اس سے کہیں وہ میرا ظلم ثابت کرے یہ کہہ کر بادشاہ آگ برساتا عدالت سے چلا گیا اصل واقعہ یہ تھا کہ بادشاہ کو ہر گردن جھکی چاہیے تھی شہر کے سارے علما اور اولیا کرام بادشاہ کے دربار میں حاضری دیتے تھے شیخ زادہ جام بے نیاز درویش تھے جب وہ دربار میں سلامی کے لیے حاضری نہ دیتے تو بادشاہ کو ناگوار گزرا اپنے خاص سرکار کو شیخ صاحب کے پاس بھیجا اور دعوت شاہی کا دعوت نامہ دیا تو اہل حق درویش بے نیاز نے عارفانہ جلال سے کہا اپنے بادشاہ سے جا کر کہہ دو میں ظالم حکمران کی دعوت میں غلاموں کی طرح کبھی حاضر نہیں ہوں گا درویش کا جواب سن کر بادشاہ آگ بگولہ ہو کر قاضی عدالت میں جا کر قاضی سے کہتا ہے کہ شیخ جام احمد کو بلا کر اس سے میرے ظلم کا ثبوت پو چھا جائے اور پھر اہل دلی نے یہ منظر دیکھا کہ قاضی کمال الدین کی عدالت لگی ہے اور ہندوستان کے بادشاہ محمد بن تغلق کا مقدمہ زیر سماعت ہے ایک طرف بادشاہ وقت دوسری طرف درویش بے نیاز شیخ جام احمد ملزم کی حیثیت سے کھڑا تھا اب بادشاہ پھنکار تا ہوا اٹھتا ہے اور قاضی صاحب سے کہتا ہے اِس شیخ زادے سے کہیں میرا ظلم ثابت کریں شیخ احمد جام بادشاہ کے تیور دیکھ چکے تھے موت شیخ صاحب سے چند قدم دور تھی لیکن درویش با کمال کی آواز میں لرزش تک نہ ہوئی اور نہ ہی زبان لڑکھڑائی انداز بے نیازی سے عارفانہ جلال کے ساتھ بولنا شروع کیا ہاں میں پھر کہتا ہوں بادشاہ ظالم ہے اِس نے بلا وجہ دہلی جیسے خوبصورت شہر کو اجاڑ کر دولت آباد کو آباد کرنے کی ناکام کو شش کی اﷲ کی مخلوق اِس کی ضد کی وجہ سے دہلی چھوڑ کر دولت آباد میں ذلیل ہو رہی ہے یہ بادشاہ کا پہلا بڑا ظلم تھا قاضی بادشاہ اور حاضرین درویش بے مثال کی پر جلال آواز اور جرات پر حیران تھے عدالت کے درو بام پر سکتہ طاری تھا کہ شیخ صاحب کی جلال آواز پھر گونجی بادشاہ سلامت تم جب بھی کسی کو سزا دیتے تو تو جس کا جرم ہوتا ہے اس کے علاوہ اس کے اہل و عیال خاندان والوں کو کیوں جلادوں اور قید کے حوالے کر دیتے ہو یہ کس مذہب اور قانون میں جانبر ہے کہ مجرم کی سزا اس کے خاندان کو دی جائے اور ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ تمہاری غیر موجودگی میں لوگوں اور تمہارے سرکاری کارندوں کے سامنے تم کو ظالم کہا اور آج میں اِس بھری عدالت میں بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں قاضی اور تمہارے سامنے پھر کہتا ہوں کہ تم ایک ظالم بادشاہ ہو اور عوام پر ناحق ظلم کر تے ہیں بادشاہ اور قاضی صاحب کو شیخ جام احمد سے ان الفاظ اور جرات کی بلکل بھی توقع نہ تھی آخر بادشاہ غصے میں اٹھا اور فیصلہ سنا یاگیا کہ اِس بے باک زباں دراز صوفی کو حوالہ زندان کردو اور پھر بادشاہ کی جھوٹی انا کی تسکین کے لیے شیخ زادہ جام احمد کو قید کی تاریکیوں کے حوالے کر دیا گیا درویش حق گو کو قید کے حوالے کرنے کے بعد بھی ظالم بادشاہ کو قرار نہ آیا اور فیصلہ کیا کہ اِس اکڑی گردن کو جھکا کر دم لوں گا اب سزا کے لیے نہایت ظالمانہ وحشیانہ طریقہ نکا لا ایک قد آدم لو ہے کا پنجرہ تیار کروایا پھر اس میں شیخ کو قید کر کے ہاتھی پر رکھ کر دولت آباد لے گیا وقفے وقفے سے بادشاہ شیخ جام کو لو ہے کے پنجرے سمیت اپنے سامنے حاضر کر تا اور کہنا اے شیخ زادہ تم اب بھی اپنی ضد پر قائم ہو تو درویش وہی الفاظ دہراتا کہ تم پہلے سے بھی زیادہ ظالم ہو بادشاہ اپنی انا کی تسکین اور درویش وہی الفاظ دہراتا کہ تم پہلے سے بھی زیادہ ظالم ہو بادشاہ اپنی انا کی تسکین اور درویش کو شکست دینے کے لیے درویش کو موت بھی نہیں دے رہا تھا باقاعدگی سے صبح شام کھانا شیخ صاحب کو پیش کیا جائے تاکہ زندہ رہ سکے جب بھی سرکاری کا رندے کھانا لاتے تو درویش پانی پی کر کہتا میں روزے سے ہوں اِس طرح حق گو درویش پانی سے ہی سحری افطاری کر رہا تھا پھر جب بادشاہ دولت آبا دہے دہلی سے روانہ ہوا تھا شیخ صاحب کا پنجرہ ہاتھی پر تھا عوام حیرت سے جنونی بادشاہ اور درویش کی ثابت قدمی دیکھ رہے تھے پھر بادشاہ دہلی پہنچ کر دارالقضا کے سامنے رک گیا دارالقضا موجودہ زمانے کی سپریم کورٹ کو کہا جاسکتا ہے پھر بادشاہ نے پنجرہ کھول کر شیخ صاحب کو نکالنے کا حکم دیا درویش بے نیاز باوقار انداز سے با ہر آرہا جس کے چہرے پر خوف کا ہلکا سا عکس بھی نہیں تھا بلکہ ہونٹوں پر فاتحانہ تبسم پھیلا ہوا تھا آپ کی بے نیازی اور مسکراہٹ دیکھ کر بادشاہ آگ بگولہ ہو گیا غصے سے بولا شیخ زادے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو پھر جب جلا دتلوار لہراتا ہوا تاریخ ہندوستان کے عظیم جانباز حق گوکی طرف بڑھا تو آپ نے جلاد کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور تغلق کی طرف منہ کر کے بولنا شروع کیا موت سبب کا مقدر ہے آج میں جارہا ہوں کل تمہاری باری ہو گی کل تیری موت کس طرح ہو گی یہ رب جانتا ہے میں نے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے پنا ہ مانگی تھی ۔ حق تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اِس عاجز بندے کی دعا کو قبول کیا گردشِ ایام سارے منظر کو دھندلا دیں گے لیکن قیامت تک لوگ اِس منظر کو یاد رکھیں گے کہ اہل حق گھر نے بادشاہ کے ظلم کے خلاف حق کی آواز بلند کی تھی ظالم بادشاہ آپ کو پنجرے میں بند کر کے بار بارا مختلف قسم کی اذیتیں دے کر ناکام ہو چکاتھا بادشاہ کی یہ خواہش تھی کہ کسی طرح شیخ زادہ جام احمد اپنے الفاظ کو واپس لے لیں اور اقرا ر کریں کہ بادشاہ ظالم نہیں لیکن عادل شاہ ہے وہ بادشاہ جو دن رات سینکڑوں انسانوں کی گردنوں پر تلوار پھیر کر خون کے دریا بہا دیتا تھا وہ حیرت ہے بزم تصوف کے اِس بے نیاز جانباز کو دیکھ رہا تھا کہ یہ کس مٹی کا بنا ہے خوف کا ہلکا سا عکس بھی اِس کے چہرے یا آنکھوں میں نظر نہیں آرہا بادشاہ اپنی پوری چالاکیوں اور سازشوں سے ناکام ہو گیا تھا شیخ جام احمد جام درویش بے نیاز نے اس کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا شیخ جام نے بے نیازی سے جلاد کو کہامیری بات ختم ہوئی اب تم اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرو پھر کلمہ شہادت کا بآواز ورد کیاکہ جلاد کی تلوار لہرائی اور شیخ جام احمد کا جسم دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا جس کے خون کے ہر قطرے سے ایک ہی آواز آرہی تھی۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جاں دیگر است
جو لوگ تسلیم و رضا کے خنجر سے قتل کئے گئے انہیں ہر زمانے میں غیب سے نئی زندگی عطا کی جاتی ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 801 Articles with 655030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.