حلال معاشرہ؟
(Syed Muhammad Zohaib, Karachi)
آج پارک میں بیٹھے ہوۓ میری نظر ایک درخت پہ پڑی جو ہرے
اور کچھ پیلے پتّوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس درخت کے ساۓ تلے کافی خوبصورت پھول
ِگرے ہوۓ تھے جو لوگوں کے قدموں تلے روندے جا رہے تھے۔ غور کرنے پر میں نے
یہ دیکھا کہ اس درخت پر پرندوں کا آنا جانا کافی ہے اور پرندے پورے درخت پر
موجود ان تروتازہ پتّوں کو چھوڑ کر صرف پھولوں سے آ کے رس پیتے اور پھول
کچھ لمحے بعد سوکھ کر نیچے گر جاتا۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے ہماری زندگی اور
ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کا اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں بھی کچھ
ایسی ہی صورتحال ہے کہ آپ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں، خواہ شکل و صورت کے
اعتبار سے یا اپنی ذہنی و عقلی صلاحیات اور خصوصیات کی وجہ سے، آپ کو اور
آپ کی خصوصیات کو نقصان پہچانے والے آپ کو ان سیکڑوں ہرے پتّوں کے بیچ
موجود اس پھول کی طرح بھی تلاش کر لیں گے، اور جب وہ آپ کو نقصان پہنچا دیں
گے تب بھی ان کے غرور، تکبر، لالچ اور افسوس کے ساتھ حَوَس کی پیاس میں ذرہ
سی بھی کمی نہیں آۓ گی۔ وہ اس پیاس کو بجھانے کی خاطر دوسرے پھولوں کی طرف
اُڑھ جائیں گے اور ان کی زندگی بس یہی کرتے کرتے گزر جاۓ گی۔
شکوہِ بنتِ حوّا ہے، انصاف کا کوئ دستور نہیں
لوٹا اِسے رکھوالوں نے، رہزنوں کا کوئ قصور نہیں
میرے استاد محترم اکثر کہا کرتے تھے کہ حرام کی ایک روٹی سے حلال کا ایک
نوالہ بہتر ہے۔ اب پرندوں کو حلال حرام کا فرق سمجھانا تو کچھ آسان نہیں
مگر انسانوں کے لئے اس فرق کا علم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ افسوس کے ساتھ
ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں جس کو جس کام سے منع کیا جائے وہ اسی کام
کو کرکے سکون حاصل کرتا ہے۔ قصور ان کا ہے بھی اور نہیں بھی، وہ اس طرح کہ
جب انسان کو معلوم ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور وہ جانتے ہوئے بھی
غلط کا انتخاب کرے تو اس میں وہ قصوروار ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ حرام میں
لذت ہی کچھ الگ ہوتی ہے، جب آپ کو ایک کے دو اور دو کے چار مل جائیں وہ بھی
بغیر کسی اضافی مشقت کے تو کس کو برا لگتا ہے مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں
کہ اپنی لذت کو پورا کرنے کے لئے حرام کا سہارا لیا جائے۔ انسان کی فطرت
میں بھوک ہے اور وہ اس بھوک کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
یہاں امتحان ہے صبر کا اور جو اس میں کامیاب ہو گیا وہ ہمیشہ کے لئے کامیاب
ہو گیا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور
حرام عام ہو تا جا رہا ہے۔ ہم اس زمانے میں قدم رکھ چکے ہیں جہاں نیکی کرنے
والے کو ایسے سراہا جاتا ہے جیسے اس نے کوئی ملک فتح کیا ہو جبکہ میرے
نزدیک نیک عمل کا شمار عام معاملات میں کیا جانا چاہئے نا کہ خاص میں۔ اگر
کوئی شخص پانچ وقت کا نمازی ہے تو یہ ایک عام بات کیوں نہیں ہے ؟ اور ایک
شخص نشے کا عادی ہے یا زنہ کرتا ہے تو یہ عام بات کیوں ہے؟ ہم خود جتنے
مرضی غلط ہوں مگر کبھی بھی خود کو قصوروار نہیں ٹھہراتے بلکہ ہر چیز دوسروں
پر اور بلخصوص زمانے پر ڈال دیتے ہیں۔
پکڑ کر ہاتھ میں بوتل شراب کی
شکوہ ہے سب کا کہ زمانہ خراب ہے
مختصراً یہ کہ ہم اک ایسی سمت میں جا رہے ہیں جس کے اختتام پر صرف اندھیرا
ہے، اگر ہم یونہی حرام کو عام کرتے چلے گئے اور ہمارے معاشرے کے پھول یونہی
ظالم پرندوں کی پیاس/حوس کی بھینٹ چڑھتے رہے تو ہمارا انجام بربادی ہے، صرف
بربادی۔۔ حرام کی لذت وقتی ہے مگر اس کا اثر نسلوں تک برقرار رہتا ہے۔ لوگ
فنا ہو جاتے ہیں مگر ان کی یاد ایک طویل عرصے تک ذہنوں میں قائم رہتی ہے اب
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کو کن الفاظ میں یاد رکھا جائے۔ اپنے معاشرے
کے ان تلخ حقائق کو لکھنے کا بعد میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہم ایک
حلال معاشرے کے حرام سپوت" ہیں۔"
|
|