اب ہماری بات نہیں ہوتی

کیا اتنا آسان ہے یہ کہہ دینا کہ 'اب ہماری بات نہیں ہوتی'؟ شاید نہیں! زندگی ایک حسین سفر ہے جس کو چار چاند لگاتے ہیں کچھ خاص لوگ۔ اِن خاص لوگوں میں ایک شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو سورج کی مانند ہوتا ہے کہ جس کی روشنی کا چاند بھی محتاج ہو۔ ہزاروں یادیں بنائ جاتی ہیں، خوبصورت لمحے گزارے جاتے ہیں لیکن کب تک؟ کبھی سوچا نہ تھا کہ کبھی کبھی کی بات سے روز کی عادت تک کا یہ خوبصورت سفر جب ختم ہو گا تو کیا ہو گا۔ مگر اتنا ضرور معلوم تھا کہ ہمیشہ کے لۓ یہاں کوئ نہیں ہیں۔ کچھ باتوں کا صرف یقین کر لینا آسان نہیں ہوتا، سالوں کا تعلق ایک لمحے میں ختم ہو جاۓ تو اُس کو بھلانا بلخصوص اس شخص کو بھلانا کسی جنگ سے کم نہیں۔ وجہ کیا ہے؟ سوال مختصر ہے مگر اس کا جواب آج تک نہ آ سکا اور مستقبل قریب میں اس کے آنے کی بھی کوئ امید نہیں کیونکہ۔۔کیونکہ 'اب ہماری بات نہیں ہوتی'۔ میں نے اپنی ۲۲ سالہ زندگی میں ایک بات ضرور سیکھی ہے کہ تعلق کے اس گھر میں جب اعتبار کی دیوار کمزور پڑ جاۓ تو پل بھر میں وہ گھر برباد ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہر کسی کا تجربہ مختلف ہو سکتا ہے مگر یہاں بات میری اور صرف میری ہے۔ یہاں برباد ہونے والا اور کرنے والا ایک ہی ہے اور وہ میں ہوں۔ میں نے اعتماد کا سورج غروب ہوتے دیکھا مگر پھر بھی سفر جاری رکھا، میں نے اعتبار کی دیوار کمزور پڑتے دیکھی مگر پھر بھی اسے سہارا دیتا رہا۔ مگر جب سورج ڈھل گیا اور دیورار گر گئ تو ہر طرف صرف اندھیرا تھا اور اک ملبے کا ڈھیر تھا جس کے تلے دبا تھا میرا وجود۔ وہاں بکھرا ہوا تھا میرا اعتماد، ٹوٹے ہوۓ تھے میرے خواب اور دفن ہو گئ تھی کچھ امیدیں۔ مجھے مدد کے لۓ کسی کو پکارنا تھا مگر احساس ہوا کہ ' اب ہماری بات نہیں ہوتی'۔ میں نے اک وقت تک یقین کا دروازہ کھلا رکھا تھا اور ہر آتی ہوئ امید کو گلے لگایا مگر پھر امیدیں آنا چھوڑ گیئں اور یقین کا دروازہ بند ہو گیا۔ اک سوال میرے ذہن میں ہمیشہ رہا ہے کہ کوئ شخص کتنا خاص ہو سکتا ہے؟ جینے اور مرنے کی کتابی باتوں سے زرا ہٹ کے جب اپنے گرد اور بلخصوص اپنی ذات پر نظر دوڑائ تو کچھ جوابات نمایاں ہوۓ: کوئ اتنا خاص ہو سکتا ہے کہ آپ کواس کی موجودگی سے بھی راحت ملتی ہو، خود سے زیادہ اسے خوش دیکھنے کی خواہش ہو اور اس کے ساتھ تعلق کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے۔ اب اس سے ایک سوال یہ آتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی میرا شکوہ کیا ہے؟ جب سب کچھ درست سمت میں چل رہا تھا تو پھر حالات کب، کہاں اور کیوں بدلے؟ ان کے جواب میرے پاس تو نہیں مگر سوچا کہ اس سے ہی پوچھ لیا جاۓ تو یہ احساس ہوا کہ 'اب ہماری بات نہیں ہوتی'۔ میں نے خود سے جب یہ سوال کیا کہ آخر کیا فائدہ اتنا کچھ لکھنے کا جب خود کے سوا کوئ پڑھ بھی نہیں سکتا یہ سب بلخصوص وہ بھی نہیں جن کے لۓ لکھا ہے، تو خود کو میں نے جواب دیا کہ آج میری خاموشی کو سمجھنے والا کوئ نہیں، میرے الفاظ کو سمجھنے والے چند اک ہیں مگر جب روہ جسمِ خاکی سے پرواز کر جاۓ گی اور یہ الفاظ کا خزانہ سب کی نظروں کی زینت بنے گا تو ہر فرد احساسِ حقیقت میں مُبتلا ہو جاۓ گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ میں جیسا تھا ویسا مگر کیوں تھا ۔

صرف احساس ہو جانا ہی کافی نہیں بلکہ اک پچھتاوا بھی ہو گا کہ ان سوالات کے جواب ہم کو دینے ہیں مگر افسوس کے بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ مجھے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کچھ راستوں پر جانا تھا مگر بند راستہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ' اب ہماری بات نہیں ہوتی'۔۔۔۔
 
Syed Muhammad Zohaib
About the Author: Syed Muhammad Zohaib Read More Articles by Syed Muhammad Zohaib: 9 Articles with 4053 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.