اپنا عمل فطرت کے مطابق بنائیں

خالقِ کائنات نے نظامِ کائنات کسی خاص اصولوں کے تحت وضع کیا ہےجیسے ہماری زمین ، سورج، چاند اور ستارےاپنے مقرر کردہ دائروں میں رہتے ہوئے سفر کر رہے ہیں۔ ہوائیں، زلزلے اور سیلاب اپنے مقرر کردہ قوانین کے تحت جنم لیتے ہیں اور اپنے اثرات بھی مقرر کردہ کلیات کے تحت چھوڑ جاتے ہیں۔درختوں سے لے کر انسانوں تک تمام مخلوقات ایک خاص بنیادی اصول کے تحت نمودار ہوکر مقرر کردہ معیاد کے بعد صفحئہ ہستی سے مِٹ جاتی ہیں۔ایک مخلوق کا دوسری مخلوق کی جان لے لینا ایک الگ اصول کے تحت ہے جب کہ ایک مخلوق کا اپنی ہی ہم مخلوق کی جان لینا کسی اور ضابطے کے تحت ہے اور یوں ہمیں ظلم و رحم کا وجود دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر مخلوق نے عطا کردہ اپنے اپنے شعور کے مطابق نہ صرف زندگی گذارنے کے طریقے اختیار کیئے ہوئے ہیں بلکہ ان زندگیوں میں رنگ بھرنے کے طریقے بھی خود ہی دریافت کیئے جن میں ماہ و سال کے تغیرات کے ساتھ تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔
ایک نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہر مخلوق اپنی زندگی کو سب سے مقدّم سمجھتی ہے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لئے دوسری مخلوق تو کیا اپنی ہم مخلوق کی زندگی کو بھی اہمیت نہیں دیتی۔جیسے ایک مضبوط نسل کا پودا زمین سے باہر نکلتے ہوئے زمین کو چیرتے ہوئے، اپنے اوپر موجود ہر قسم کے گھاس پھوس اور کیڑے مکوڑوں کے بسیروں کو تہس نہس کرتا ہؤا زمین پر آس پاس جھانکنا شروع کرتا ہے اور قد آور ہونے تک اس کے راسے میں کوئی بھی کمزور پودا، بیل بوٹا آجائے تو اس کو کسی خاطر میں نہیں لاتا، حتیّٰ کہ جب کوئی دیوار راستہ روکنے کی کوشش کرے تو اس کو بھی چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔بعینئہ ہر مخلوق کرتی ہے جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے، جنگل میں شیر بادشاہ ہوتا ہے اور کسی جانور کو مارکر کھا جانا اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اشرف المخلوقات حضرتِ انسان نے وقت کے ساتھ دوسرے انسان کو کھانے کے لئے مارنا تو چھوڑ دیا لیکن اپنے فائدے کے کئے ابھی بھی کسی کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتا، اسی لئے یہ محاورہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"
آپ سوچیں گے کہ میں اپنی کتاب کے عنوان کے مطابق تو کچھ بھی نہیں لکھ رہا بلکہ ابھی تک تو قطعئی طور پر برخلاف ہی لکھا ہے تو عرض ہے کہ ابھی تو تمہیدی کلمات ادا کئے ہیں، اصل عنوان تک آنے میں کچھ گزشتہ سے پیوستہ تو کرنا پڑتا ہے تاکہ اصل مدعا نہ صرف بیان کرنے میں سہولت ہو بلکہ قاری حضرات کو سمجھنے میں بھی آسانی ہو۔ابھی میں نے خالقِ کائنات کی فطرت بیان کی ہے جو کوئی انکشاف نہیں، سب ہی یہ باتیں جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس سے ہٹ کر کچھ کرنا آسان نہیں ہوتا ، یعنی فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا خمیازہ بھی بگھتنا پڑتا ہے اس لئے کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیئے کہ فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ایسا عمل کیا جائے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تو آئیے آپ کو بتائیں کہ ایسا کیسے ہوگا؟
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 114240 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More