نفسیاتی فاصلہ

حسنین ملک

یہ بڑی عجیب سی اصطلاح ہے ، اس کا مطلب دلوں میں فاصلہ نہیں ہے ، اس کا مطلب جسموں کا فاصلہ ہرگز نہیں ہے اور نہ دو مختلف سوچ رکھنے والے افراد کے درمیان ضروری ہے کہ نفسیاتی فاصلہ بھی ہو۔ تو پھر یہ کیا بلا ہے؟

آئیے اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں

ایک انسان کے نزدیک سیرو سیاحت ایک بہت بڑی پر سکون تفریح ہے اور وہ اس کے لیے اپنے گھر کا سکون ، آرام ، آسانی اور وقت قربان کر دیتا ہے ، وہ اس کے لیے پیسوں کو بھی کس خاطر میں نہیں لاتا کیونکہ اس کے لیے یہ ایک ذہنی سکون پانے کا ذریعہ ہے مگر اسی گھر میں ممکن ہے ایک دوسرا شخص اسے بے آرامی یا فضول خرچی تصور کرتا ہو۔ یہ نفسیاتی فاصلہ نہیں ہے یہ مزاج کا ، پرورش کا یا پھر تجربات کا فرق ہے ۔ بعد الذکر انسان کی صحبت یا تجربات بدلنے سے اس کے سیرو سیاحت کے متعلق خیالات کو بدلا جا سکتا ہے۔

بالکل اسی طرح دو مذہبی یا سیاسی نظریات بھی ہیں اور آپ نے اکثر لوگوں کو زندگی میں اپنے مذہبی و سیاسی نظریات بدلتے بلکہ مذہب تک بھی تبدیل کرتے دیکھا ہوگا وجہ یہی ہے کہ یہ نفسیاتی فاصلہ نہیں ہوتا، بلکہ نظریاتی فاصلہ ہوتا ہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نفسیاتی فاصلہ کیا چیز ہے؟

نفسیاتی فاصلے کی پہلی اور آسان مثال بچوں سے سیکھی جا سکتی ہے ۔ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہوئے ، ایک ہی تھالی میں کھاتے ، ایک ہی ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں مگر مزاجوں ،سوچوں، نظریوں اور نفسیات میں میلوں کا فاصلہ ہوتا ہے ۔ باقی فاصلے عمر کے ساتھ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں کبھی ختم بھی ہو جاتے ہیں مگر نفسیاتی فاصلہ قائم رہتا ہے۔

نفسیاتی فاصلہ یہ ہے کہ ایک انسان کو تنہائی پسند ہے، وہ اکیلے رہنے کو ، اکیلے سفر کرنے کو اور اپنی دنیا میں مست رہنے کو پسند کرتا ہے یا بہت زیادہ ہو تو صرف اپنے ایک پسندیدہ شخص کو ساتھ لے کر جبکہ اسی گھر میں موجود اس کا دوسرا بہن بھائی محفلوں اور ہجوم کا عادی ہے۔ اب یہ دونوں انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس فاصلے کو ختم نہیں کر سکتے ، کبھی ایک انسان دوسرے کی خاطر قربانی دے کر محفل کا حصہ بن جاۓ گا اور وہ محفل میں اکیلا ہی محسوس کرے گا یہ بھی ممکن ہے محفل میں شریک افراد اسے بیمار، مغرور یا پینڈو سمجھ رہے ہوں پھر بھی وہ شخص گھل مل نہیں پاۓ گا اور کبھی محفل کا شوقین انسان اس تنہائی پسند کو اس کے حال پر چھوڑ جاۓ گا اور ساتھ لے جانے کی زبردستی نہیں کرے گا اور نہ اسکے بارے میں برا خیال کرے گا۔ ایسا بہت آئیڈیل ماحول میں ہی ہوتا ہے عام طور پر ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں ہے ،ہم دوسروں کو اپنے طریقہ پر لا کر ہی اپنی جیت تصور کرتے ہیں ، ورنہ ہمیں شکست کا احساس ستاتا ہے اور وہ ہمیں ہرگز قبول نہیں۔۔

یہ نفسیاتی فاصلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ تب ہوتا ہے جب یہ میاں بیوی کے درمیان پایا جاۓ اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری پرورش و تعلیم میں ہمیں اس طرح کے فاصلوں کو سمجھنا اور ان سے نمٹنا سکھایا ہی نہیں گیا۔

پرانے وقتوں میں میں ازدواجی جوڑے پہلے دن سے ہی اس فاصلے کو جان کر ساری زندگی ریل کی دو پٹریوں کی طرح ساتھ ساتھ تو چلتے تھے مگر مل نہیں پاتے تھے۔ معاشرتی اور سماجی دباؤ کے باعث 99 فیصد جوڑے نہ تو اس تعلق کو توڑ سکتے تھے اور نہ اتنا شعور تھا کہ اس کو بہتر کر لیا جائے ۔ مرد کو مردانگی اور عورت کی جسمانی ضرورت اور سہولت دستیاب رہتی تھی اور عورت کو اس گھر سے صرف جنازے کی شکل میں نکلنے کی تنبیہ نے ان پٹریوں کو نہ کبھی دلی طور سے جڑنے دیا اور نہ کبھی الگ ہونے دیا۔

سائنس کہتی ہے مکھی ایک سیکنڈ میں 200 دفعہ پر گھماتی ہے اگر یہ 50 دفعہ بھی گھما لے تو اڑ سکتی ہے مگر چونکہ مکھی کو سائنس نہیں آتی اس لیے وہ 200 دفعہ پر گھمانے میں مصروف ہے ۔ ایسے ہی ہمارے بزرگوں کے جوڑے اور ہم میں سے بھی بہت سے زوج ساری زندگی 200 دفعہ جیسی پر گھمانے کی مشقت کے ذریعے زندگی گزار رہے ہیں اور ہم اس نفسیاتی فاصلے کی سائنس کو ماننے یا سمجھنے کی طرف نہیں آ رہے، اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسے ماننے کے لیے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم غلط بھی ہیں اور کم علم بھی اور دوسری بڑی وجہ پہلی وجہ کے وجود سے انکار ہے۔

مسئلہ اگر سمجھ آ گیا ہے تو پھر حل سمجھنا بھی آسان ہے۔ اس مسئلے کا سادہ سا حل جسے گوروں نے
Personal Spaceکا نام دیا ہے۔

میرے ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ اس کا بیٹا جو غالباً 7 سال کا ہے وہ بہت ضدی اور جھگڑالو ہے، بات بالکل نہیں مانتا اور تھوڑی سختی کرنے پر بدتمیزی بھی کر جاتا ہے ۔ میں نے انھیں یہ
Personal Space والی کہانی تو نہیں سنائی مگر دوسرے الفاظ میں یہی کام کروا لیا۔ میں نے ان سے عرض کی کہ آپ کے گھر میں جو ایک فارغ کمرہ ہے اس میں اس بچے کی زیادہ تر چیزیں رکھ دیں ، ایک نئی الماری خریدیں جس میں تالا لگتا ہو اور وہ بھی اس کے کمرے میں رکھ دیں اور اس کو بتائیں کہ آج سے یہ کمرہ صرف تمھارا ہے اور یہ الماری بھی تمھاری ہے اس میں تم اپنی مرضی کی چیزیں رکھو اور چابی بھی صرف اپنے پاس رکھو۔ میں نے ان سے مزید دو کام کرنے کو کہا ، پہلا یہ کہ ایک اچھا سا پرندوں کا جوڑا جو اس بچے کی پسند سے ہو، وہ بھی ایک پنجرے میں ڈال کر اس کمرے میں رکھ دیں اور دوسرا اس بچے کے شوق کے مطابق اسکے کمرے میں ایک باکسنگ کٹ بھی لٹکا دی ۔ بس اب وہ بچہ سکول ، ہوم ورک اور قاری صاحب سے فرصت کے بعد پرندوں کو دیکھنے اور باتیں کرنے میں مگن ہو گیا، بقیہ وقت باکسنگ کٹ پر مکے لگانے میں صرف ہونے لگا اور اپنی قیمتی اور روزمرہ کی چیزوں کو الماری میں رکھتا اور نکالتا۔ کبھی پرندوں کا دانہ ختم ہو جاتا اور کبھی ان کی صفائی کی محتاجی، پس جب بھی وہ کمرے سے باہر آتا تو اس کے پاس چند مسائل ہوتے اور ان کے حل کے لیے اسے والدین سے رجوع کرنا پڑتا اور یوں دوطرفہ لین دین کا دور شروع ہو گیا۔

مزید برآں ، وہ باکسنگ کٹ پر پنچ لگا لگا کر اپنی انرجی کو مثبت استعمال کرنے لگا ، اپنے کمرے اور چابی والی الماری نے بادشاہ سلامت کو اپنی سلطنت والی کیفیت سے روشناس کرایا اور سب مل کر ہنسی خوشی رہنے لگے۔

عربی کہاوت ہے کہ جو اونٹ پالتے ہیں وہ دروازے بھی اونچے رکھتے ہیں پس جب تعلق بنایا جائے تو سامنے والے کو اس کے مرضی کی Personal Space دینے کا لازمی خیال رکھیں، اس جملے میں سارا وزن اس کی مرضی پر ہے، یہاں بھی ہم اپنی مرضی مسلط کرنے کی فاش غلطی کر جاتے ہیں، اگر اس غلطی سے بچ جائیں تو تعلق چلتا بھی رہے اور پھلتا پھولتا بھی مگر ایک طرف سے بھی Personal Space کا خیال بند ہوا تو یہ نفسیاتی فاصلہ، ہزارہا قرب کے باوجود مزید فاصلے ڈال کر چھوڑے گا اور اپنی ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے ، یہی ہو رہا ہے۔

اللہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 

Sundus Mubeen
About the Author: Sundus Mubeen Read More Articles by Sundus Mubeen: 2 Articles with 930 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.