پاکستان کی مجلس شورہ یعنی پارلیمنٹ نے بچوں کی ولادت کے
موقع پر والدین کے لئے تعطیلات کے لئے بنائے گئےمٹیرنٹی اینڈ پیٹرنٹی لیو
ایکٹ، 2023 قانون کی منظوری دے دی ہے۔اور اس قانون کا اطلاق وفاقی حکومت کے
زیر انتظام علاقہ یعنی وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی حدود تک نافظ العمل
ہوگا۔یاد رہے سینیٹر قرۃ العین مری کی جانب سے پیش کیا گیا یہ بل سال
2020میں سینیٹ آف پاکستان سے منظور ہوگیا تھا مگرقومی اسمبلی اس بل کو
ایوان میں پیش کرنے کے نوے دنوں کے اندر پاس نہ کر سکی اور یہ بل 11 نومبر
2020 کو سینیٹ کو واپس کر دیا گیا۔بہرحال مئی 2023اس بل کو پارلیمنٹ میں
دوبارہ پیش کیا گیا اورپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے باقاعدہ منظور ی حاصل
کرلی گئی۔اس قانون کی درج ذیل نمایاں خصوصیات ہیں۔
اغراض و مقاصد: پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اک
حقیقت ہے۔ خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ ترقی پر سمجھوتہ کیے بغیر زچگی کی ذمہ
داریوں کو پورا کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے، آئین پاکستان کا
آرٹیکل 37-e خواتین کو زچگی کے فوائداور انہیں خصوصی سہولیات فراہم کرنے
کا حق دیتا ہے۔ اس بل کا مقصد ملازمت پیشہ حاملہ ماؤں کوانکی سہولت کے
مطابق زیادہ سے زیادہ مطلوبہ چھٹیاں فراہم کرنا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا
کوئی قانون مرد ملازمین کے لیے پیٹرنٹی چھٹی کی فراہمی کو لازمی قرار نہیں
دیتا۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ والد اور والدہ کو اپنے نوزائیدہ بچوں کی
دیکھ بھال کرنے کے قابل بنانے کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ باپ اور بچے کے
درمیان ابتدائی قریبی تعلقات کے طویل مدتی اثرات ہوتے ہیں۔اس قانون کے
مقاصد میں ملازمت پیشہ والد کے لئے زچگی جیسے اہم موقع پر زچہ و بچہ کے پاس
موجود ہونے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی شامل ہے۔
قانون کا اطلاق: اس قانون کا اطلاق وفاقی حکومت کے انتظامی علاقہ یعنی ضلع
اسلام آباد کی حدود میں تمام سرکاری اور نجی اداروں اور ملازمت پیشہ مرد و
خواتین پر لاگو ہوگا ۔
بچے کی تعریف: بچے کا مطلب ہے ملازمت پیشہ حاملہ خاتون کا پیدا ہونے والا
بچہ/مرد ملازم کی بیوی کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ
ملازم کی تعریف: ملازم کا مطلب ہے کوئی بھی فطری شخص جو تنخواہ، اجرت یا
دیگر مراعات کے لیےیا اپرنٹس شپ کی سروس کے معاہدے کے تحت مستقل بنیادوں پر
اور آجر کے ساتھ مدت کی حد معین کئے بغیر کام کرتا ہے، خواہ محنت مشقت
مزدوری، علمی کام ، دفتری کام یا کوئی اور کام، چاہے آجر اور ملازم کے
درمیان معاہدہ ظاہر ہو یا مضمر، زبانی یا تحریری ہو۔
اسٹیبلشمنٹ: اسٹیبلشمنٹ سے مراد کوئی وزارت، ڈویژن، منسلک محکمہ، ماتحت
دفتر، ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ، پبلک یا پرائیویٹ ادارہ، فرم، کارپوریشن، خود
مختار یا نیم خودمختار ادارہ، کارپوریٹ باڈی، انٹرپرائز، کمپنی، صنعت،
فیکٹری یا اس طرح کا کوئی دوسرا دفتر یا ادارہ۔ کسی بھی نام سے اور ضلع
اسلام آباد کے انتظامی کنٹرول میں آتا ہو۔
آجر کی تعریف: آجر میں وفاقی حکومت یا کوئی وزارت یا ڈویژن یا محکمہ یا
وفاقی حکومت کے دفاتر شامل ہیں۔کسی آجر کا کوئی مینیجنگ ایجنٹ یا افراد
میں سے کوئی بھی چاہے شامل کیا گیا ہو یا نہیں۔اور فوت شدہ آجر کا قانونی
نمائندہ۔اور جہاں ایک مزدور کی خدمات عارضی طور پر دی جاتی ہیں یا کسی
دوسرے شخص کو اس شخص کے ذریعہ کرایہ پر دی جاتی ہیں جس کے ساتھ مزدور نے
اپرنٹس شپ کی خدمت کا معاہدہ کیا ہے۔اور اس طرح کے دوسرے شخص نے اس کے لئے
کام کرنے والے مزدور کو ملازم رکھا ہو۔
زچگی کی چھٹیوں کا حق: زچگی کی چھٹی ایک خاتون ملازم کوطے شدہ استحقاقی
چھٹیوں سے ہٹ کر، پہلے بچے کی پیدائش پر ایک سو اسی دن کی چھٹیاں بمعہ مکمل
تنخواہ کیساتھ دی جائیں گی۔دوسرے بچے کی پیدائش پر ایک سو بیس دن کی چھٹیاں
بمعہ مکمل تنخواہ کیساتھ اور تیسرے بچے کی پیدائش پر نوے دن کی چھٹیاں بمعہ
مکمل تنخواہ کیساتھ دی جائیںگی۔ زچگی کی چھٹی خاتون ملازم کی پوری سروس میں
تین بار سے زیادہ نہیں دی جا سکتی سوائے اس کے کہ جب یہ چھٹی اس کے واجب
الادا اور اس کے لیے قابل قبول ہو یا بغیر تنخواہ کے غیر معمولی چھٹی کے
طور پر دی جائے۔ایک مرد ملازم جسکی بیوی سے بچے کی پیدائش متوقع ہو،مرد
ملازم کوطے شدہ استحقاقی چھٹیوں سے ہٹ کر مکمل تنخواہ کیساتھ تیس دن کی پر
پیٹرنٹی چھٹی دی جائے گی۔ زچگی کی چھٹی مرد ملازم کی پوری سروس میں تین بار
سے زیادہ نہیں دی جا سکتی سوائے اس کے کہ جب یہ چھٹی اس کے واجب الادا اور
اس کے لیے قابل قبول ہو یا بغیر تنخواہ کے غیر معمولی چھٹی کے طور پر دی
جائے۔
جرائم و سزائیں: کوئی شخص جو اس ایکٹ کی کسی شق کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے
جرم کا ارتکاب سمجھا جائے گا جس کی سزا یا توقید کی سزا جو چھ ماہ تک ہو
سکتی ہے یا جرمانہ جو ایک لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں۔
قواعد بنانے کا اختیار: وفاقی حکومت، سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے،
اس ایکٹ کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بنا سکتی ہے۔
اس قانون کی منظوری کے بعد یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اسلام آباد کی ضلعی
انتظامیہ و وفاقی حکومت قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن
کوشش کریں گی۔تاکہ زچگی جیسے اہم مرحلہ میں ملازمت پیشہ والدین تک قانون کے
ثمرات بہ احسن طریق سے پہنچ سکیں۔اسکے ساتھ ساتھ اس قانون کی خلاف ورزی
کرنے والے اداروں /افراد کے خلاف تادیبی کاروائیوں کو یقینی بنایا
جائے۔حکومت پاکستان اور متعلقہ محکموں کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ
میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس قانون کی بھرپور تشہیر وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آٹھاروی ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت زیادہ خودمختاری مل چکی ہے۔ اُمید
یہی کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی تمام صوبائی اسمبلیوں میں بھی اس طرز پر
قانون سازی کی جائے تاکہ پاکستان بھر میں ملازمت پیشہ والدین معاشی و پیشہ
وارانہ بے فکری کیساتھ زچگی جیسے اہم مرحلہ میںپرسکون لمحات گزار سکیں۔
|