سمجھ نہیں آ رہی کہاں سے شروع کروں۔ میرا دکھ، میرا غم،
میری تکلیف اتنی بڑی ہے کہ اس پر بات کرنے کی پہلے تو میں ہمت ہی نہیں کر
پا رہی تھی مگر کچھ ایسا خاص میرے ننھے سے ذہن میں ابھرا کہ میں نے ہمت
باندھ ہی لی۔ جب مجھے اپنی ہی جیسی، کم عمر، معصوم بچیوں کا خیال آیا کہ
شاید میں اپنی کہانی شیئر کرکے ان کو ایسے ہی کسی کرب اور اذیت کے لمحات سے
بچا سکوں۔
میرا نام شہناز ہے، میں سندھ کے ایک نواحی گاؤں میں رہتی تھی ('تھی' اس لۓ
کیونکہ اُس اذیت ناک واقعے کے بعد اب میں حیدرآباد میں رہتی ہوں)۔ میرے ابا
کسان ہیں یا شاید بہت دکھ کے ساتھ یہاں بھی میں 'تھے' ہی استعمال کرنا
چاہونگی وجہ آپ تحریر کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خود ہی جان جائیں گے۔ بلکہ
میں اپنی اماں اور بھائ کے لۓ بھی تھے ہی استعمال کرونگی گو کہ ہیں تو وہ
بھی حیات مگر۔۔۔
ہمارا خاندان اماں، ابا، میرے بڑے بھائ اور مجھ پر مشتمل تھا۔ اپنا گھر
رکھنے کی استطاعت تو تھی نہیں، اس لۓ ایک گھر کا اوپر والا حصہ کراۓ پر لے
رکھا تھا، جو دو چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا۔ چھوٹے سے صحن سے متصل غسل خانہ
تھا۔ جبکہ باروچی خانہ صحن میں ہی بنا لیا گیا تھا۔
میں اپنی عمر بتاتی چلوں، میں 14 سال کی ہوں۔ گھر کے گزر بسر کے لۓ میری
اماں ساتھ والے گاؤں (جو قدرے خوشحال اور بڑا تھا) جا کر لوگوں کے گھر کام
کرتی اور کپڑے سلائ کرتی۔ مجھے گاؤں کے ہی ایک چھوٹے سے سکول میں داخل
کروایا ہوا تھا۔ میں دوپہر میں واپس آتی تو ابا اور بھائ (جو کوئ کام نہ
کرتا تھا) گھر پر موجود ہوتے۔ میں اپنے اور ان کے لۓ کھانا بناتی۔ کھانا
کھانے کے بعد ابا مجھے کہتے آؤ میری بچی کچھ آرام کر لیتے ہیں۔ میں بھی
نادان تھی ان کے ساتھ، ان کی چارپائ پر سو جاتی۔ مجھے سلانے کے بہانے
ناجانے ابا میرے جسم پر کہاں کہاں ہاتھ لگاتے۔ بعض دفعہ تو مجھے بہت برا
لگتا لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اماں کو بھی کبھی کچھ نہیں بتایا
کیونکہ ایک تو وہ مزاج کی سخت تھیں، دوسرا ان کے پاس میرے لۓ وقت ہی کہاں
ہوتا۔
آپ کو پہلے بتایا میں نے کہ گھر میں کمرے دو ہی تھے۔ رات میں، میں اپنی
اماں کے ساتھ سونا چاہتی کیونکہ وہاں مجھے سکون ملتا اور میں اپنے آپ کو
محفوظ سمجھتی۔ مگر میری اماں مجھے ناجانے کیوں اپنے ساتھ نہ سلاتی بلکہ
ڈانٹ ڈپٹ کر کے دوسرے کمرے میں بھائ کے ساتھ سونے پر مجبور کرتی۔ اندھیرے،
اکیلے پن، اور میری سادگی ومجبوری کا فائدہ اٹھاتے میرے سگے بھائ نےمیری
معصومیت چھیننا شروع کر دی۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں اس کا ذکر کسی سے
نہیں کر سکتی کیونکہ میرے لۓ میری اماں کے پاس وقت تھا نہ اعتبار کا مان۔
رات کا پہر چڑھتے ہی مجھ پر خوف طاری ہونے لگتا کہ آج رات کون میرے ساتھ
کیا کرے گا۔ بھائ کے ساتھ ابا نے بھی مجھ پر ظلم و ذیادتی کا پہاڑ توڑنے
میں کوئ کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ باپ اور بھائ دونوں نے ہی ایک گناۂ کبیرہ سے
اپنے ہاتھ رنگ لۓ تھے۔ مگر جو چیز مجھے شدید حیرت میں ڈالتی وہ ان کی سنگین
گناہ پر بے حسی، ہر وقت مطمئن نظر آنا اور دیدہ دلیری تھی۔
9 ماہ پورے ہونے اور شدتِ تکلیف کے باعث اماں اور گھر والےمجھے ہسپتال لے
گۓ۔ جہاں چند گھنٹوں بعد میری گود میں ایک ننھی سے جان کو رکھتے ہوۓ میرے
کانوں نے مبارکباد کے جملے سنے کہ میں ہی اس ننھی گڑیا کی ماں ہوں۔ میری تو
کچھ سجھ نہیں آرہا تھا، عمر جو ان باتوں کو سمجھنے کے لۓ ناکافی تھی۔ سب سے
خوفناک بات یہ تھی کہ ہسپتال کے فارم پر اس بچی کے باپ والا خانے کو خالی
رکھا گیا تھا کیونکہ معلوم نہیں تھا کہ اس بچی کا باپ میرا باپ تھا یا میرا
بھائ۔
شدید حیرت کا جھٹکا تو مجھے اسوقت بھی لگا کہ آخر کیونکر ان 9 مہینوں کی
حالت میری اماں سے پوشیدہ رہی یا شاید انہوں نے اپنی اذواجی زندگی کی خاطر
سب کچھ جان بوجھ کر نظر انداذ کیا ہو گا۔ تمام واقعہ پولیس تک پہنچا تو
انہوں نے میرے ابا اور بھائ کو گرفتار کر لیا۔ مگر میرے لۓ ان کی گرفتاری
کسی خوشی کا باعث نہیں کیونکہ میرا سب کچھ چھن چکا تھا اور اب میں خود بچی
کہلانے کے قابل نہ رہی تھی بلکہ ایک بچی کی ماں ہونے کا خطاب وقت سے بہت
پہلے ہی مجھے مل چکا تھا۔ کہانی ختم کرنے سے پہلے ایک اور دردناک انکشاف
ہوا مجھ پر کہ میرے ابا نے اپنا گناہ تو تسلیم کر لیا مگر اس بات پر زور
دیتے ہوۓ کہ 'غلطی' ہو گئ مجھ سے۔
معاشرے کی ماؤں کے سامنے حقیقت پر مبنی میری دلخراش کہانی حاضر ہے، اب یہ
فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے کہ انہیں کس پر اعتبار کرنا ہے اور کس پر نہیں۔
اور یہ بھی کہ کس طرح انہوں نے اپنی معصوم کلیوں کی حفاظت کرنی ہے تاکہ کسی
اور بچی کو میرے جیسے اذیت ناک لمحات کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ |