گھریلو و معاشرتی مسائل اور ان کا حل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ہم سب غلطیوں کے پتلے تو نہیں البتہ غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں، معصومین ؑ منتخب ہوچکے ہیں، لہذا کسی کو خطا سے مبرا سمجھنا خود خطا ہے۔۔۔۔ انسان اگر اپنی خواہشات اور آسائشیں چھوڑ کر دنیا کے مسائل کے حل کیلئے بنیادی نوعیت کے کاموں میں لگا ہے تو باقی غلطیاں قابل معافی ہیں۔ اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔۔۔۔ امید خدا سے ہوتی ہے۔۔۔۔ پرفیکٹ تو کوئی بھی نہیں۔۔۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم خود یا سامنے والا اپنی ہمت سے زیادہ کوشش کررہا ہے اور پھر بھی مسائل حل نہیں ہورہے ہیں تو خدا پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور خود کو بھی معاف کردینا چاہیے اور دوسروں کو بھی ، کم از کم نظر انداز کرنا ضروری ہے۔

امام علی ؑ فرماتے ہیں: لوگوں میں بہرحال کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ خبردار جو عیب ہمارے سامنے نہیں اس کا کا انکشاف نہ کریں۔ ہماری ذمہ داری صرف عیبوں کی اصلاح کردینا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے، جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کریں۔لوگوں کی طرف سے کینہ کی ہر گرہ کھول دو اور دشمنی کی ہر رسی کو کاٹ دو اور جو بات تمہارے لئے واضح نہ ہو تو اس سے انجان بن جاؤ اور ہر چغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لو کیونکہ چغل خور ہمیشہ خیانت کار ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ آئے۔ (نہج البلاغہ- خط نمبر 53)

بیشک آپ کا پروردگار ان کے لئے بہت وسیع مغفرت والا ہے وہ اس وقت بھی تم سب کے حالات سے خوب واقف تھا جب اس نے تمہیں خاک (جیسی پست چیز) سے پیدا کیا تھا اور اس وقت بھی جب تم ماں کے شکم میں جنین کی منزل میں تھے لہذا اپنے نفس کو زیادہ پاکیزہ( خود کو صحیح اور حقدار) قرار نہ دو وہ متقی ( صحیح اور حقدار) افراد کو خوب پہچانتا ہے۔ (سورہ نجم – 32)

۔۔۔ اس اصلاحی جدوجہد کے دوران دعا و توسل بھی بہت ضروری ہے۔۔۔۔ تعمیری کاموں کا نتیجہ یک دم نہیں آتا۔۔۔۔یہ دنیا ٹیسٹ کی جگہ ہے کہ کون کتنی کوشش کرتا ہے اور کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔۔۔ یہ دنیا پرفیکٹ آؤٹ کم لینے کی جگہ نہیں۔۔۔ یہاں پر جو بھی پرفیکٹ زندگی کا خواہاں ہوتا ہے اس کی پریشانیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔۔۔۔ اس دنیا میں اطمینان کا خواہاں ہونے کے مطلب یہ ہونا چاہیے کہ یعنی یہ کہ ہم درست راہ پر ہیں نیز ہمارا ہدف بھی درست ہے۔۔۔۔ اور درست و حق کی راہ پر مشکلات ہوتی ہیں، پریشانیاں ہوتی ہیں، مصائب ہوتےہیں اور یہ خدا کی طرف سے built-in ہیں۔ تاکہ خدا اس کے ذریعے اپنے بندوں کی) (purity خالصیت کو ابھارنا چاہتا ہے۔ تاکہ یہ بندے ترقی کے لائق بن سکیں۔

اور ہم یقینا تم سب کا امتحان لیں گے تاکہ یہ دیکھیں کہ تم میں سخت ترین جدوجہد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون لوگ ہیں اور اس طرح تمہارے حالات کو باقاعدہ جانچ لیں۔(سورہ محمد/31)

۔۔ رونے واویلا کرنے والے لوگوں کیلئے ترقی کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔۔۔۔ یہ دنیا کا قانون ہے۔۔۔ کہ جو مصائب پر صبر کرتاہے اپنے عالی ہدف کے ذیل میں درست راہ پر ہوتاہے اور مشکلات و مصائب برداشت کرتا ہے۔۔۔۔ تو قانون یہ ہے کہ اسی کوترقی نصیب ہوتی ہے، اسی کو پاور ملتی ہے۔

خبردار سستی نہ کرنا. مصائب پر غم زدہ نہ ہونا اگر تم صاحب یقین ہو (اور حق پر ہو) تو سر بلندی تمہارے ہی لئے ہے۔ (سورہ آل عمران- 139)

جنت بھی آرام دہ بستروں، اے سی کمروں میں رہنے سے نہیں بلکہ جدوجہد کے ساتھ ، عرق ریزی کے ساتھ، زخموں، جھٹکوں اور مصائب اور سختیوں کے بعد ملتی ہے۔۔۔ آپ دیکھ لیں تاریخ میں روشن چہرے انہی کے نظر آتے ہیں جو سخت جدوجہد اور مشکلات و سختیوں کو برادشت کرتے ہیں۔

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہارے سامنے تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل ایمان) کی سی صورتیں (اور شکلیں) آئی ہی نہیں۔ جنہیں فقر و فاقہ اور سختیوں نے گھیر لیا تھا۔ اور انہیں (تکلیف و مصائب کے) اس قدر جھٹکے دیئے گئے کہ خود رسول اور ان پر ایمان لانے والے کہہ اٹھے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی مدد یقینا نزدیک ہی ہے۔(سورہ بقرہ/214)

جب تک کرپٹ سسٹم دنیا پر حاکم ہے عائلی و گھریلو زندگیاں بھی اطمینان بخش نہیں ہوسکتیں۔ عالمی کرپٹ سیاسی اور معاشی سسٹم کو دور کرنے کا واحد حل مرحلہ بہ مرحلہ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے ، جبکہ خود موجودہ تعلیمی سسٹم بھی کرپشن کا گڑھ ہے لہذا نعم البدل فکری اور علمی مواد ایک حد تک متوازی لے لیکر چلنا ہماری مجبوری ہے۔۔۔ لہذا ہمیں سسٹم کو replace کرنے کیلئے جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔۔۔۔ اور خصوصا وہ لوگ جو اپنی چھوٹی چھوٹی مشکلات پر پریشان ہوجاتے ہیں انہیں یہ باور کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی باور کرانا ہوگا جب تک موجودہ کرپٹ سسٹم replace نہیں ہوجاتا یہ robotic اور مشینی زندگی ہمارا جینا حرام کیے رکھے گی اور شدید جدوجہد کے باوجود بھی معاشی مسائل ہماری نفسیاتی، سماجی اور گھریلو زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے اور ہم سب کولہو کے بیل کی طرح عبث اور ناکارہ زندگیاں گذار کر مٹی تلے چلے جائیں گے۔۔۔۔ بھائیوں، بہنوں کے آپسی مسائل، اولاد و والدین کے آپسی مسائل، زوجین کے آپسی مسائل، پڑوسیوں و رشتہ داروں کے ساتھ مسائل، دوستوں کے ساتھ مسائل، دفتری ساتھیوں یا مینیجرز کے ساتھ مسائل وغیرہ ہمیں اس فکر کے ساتھ نظر انداز کرنے چاہییں یا ان پر رد عمل دینا چاہیے کہ موجودہ عالم میں ہر طرف کرپشن ہے، فساد ہے اور عالمی معاشرہ اپنے قدرتی نظام سے ہٹا ہوا ہے۔ جب ہم یہ فکر رکھیں گے تب ہی ہم اس کے نعم البدل سسٹم و نظام کیلئے جدوجہد کریں گے اور لوگوں کی نادانستہ خطاؤں کو اس سسٹم کی وجہ قرار دے کر نظرانداز کریں گے۔
یقینا تم اپنے اموال اور نفوس کے ذریعہ آزمائے جاؤگے اور جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور جو مشرک ہوگئے ہیں سب کی طرف سے بہت اذیت ناک باتیں سنوگے- اب اگر تم صبر کروگے اور تقوٰی اختیارکروگے تو یہی امورمیں استحکام کا سبب ہے۔(سورہ آل عمران/186)

جب تک الہٰی امامت کا سسٹم نہیں آجاتا دنیا سے مسائل ختم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جائیں گے اوربڑھتے جارہے ہیں۔ جس کی سب سے بنیادی وجہ اچھے اور درست لوگوں کا ہمت ہار جانا، باطل کے زرق برق کی طرف نقل مکانی کرجانا ہے یا ہدف کو ترک کردینا ہے۔۔۔ یہ حرکات وقتی سکون تو دے دیتی ہیں مگر ظالم کی قوت میں اضافہ کا باعث ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔۔۔۔ آسائشیں، آرام طلبی، عافیت طلبی، عیش کوشی اس دنیا میں خدا کی نظر میں طاغوت ہیں۔۔۔۔ ہمیں ان کو ہدف بنانے کے بجائے وسیلے کے طور پر اختیار کرنا چاہیے اور صرف خود کیلئے نہیں بلکہ ہماری جدوجہد تمام عالم انسانیت کے اطمینان اور سکون کی خاطرہونی چاہیے۔۔۔۔۔ تاکہ سب اطمینان و راحت کے ساتھ خدا کے دین کی خدمت کرسکیں اور اپنی عبادات امامت کے سائے میں احسن طریقے سے پوری کرسکیں۔آج عالمی معاشرے کے جو جو بھی مسائل ہیں ان سب میں ہم انسانوں کا ہی قصور ہے لہذا اس عالمی نظام کی اصلاح کیلئے بھی ہمیں خود سے ہی شروعات کرنی ہونگی۔ جب تک ہم اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کے حقوق کیطرف سے احساس نہیں کریں گے عالمی نظام امامت کے قیام میں رکاوٹ رہے گی۔۔۔۔ اور جب تک امامت کا ادارہ عالم انسانیت پر قائم نہیں ہوجاتا ، ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے قیام کیلئے جدوجہد کرے اور کامیابی کیلئے مصائب، پریشانیوں پر صبر کرے مگر ہدف کو ترک نہ کرے۔اس ہدف کے لئے جدوجہد کے علاوہ ہر جدوجہد بے نتیجہ ہے اور اس جدوجہد میں ٹینشن ہے، اسٹریس ہے، ڈپریشن ہے ، ایسی ہر جدوجہد نفسیاتی امراض کی اماج گاہ ہے وغیرہ۔۔۔۔ لیکن جب اس نیت کے ساتھ جدوجہد کریں گے کہ دنیا میں قیام امامت ہونا چاہیے تو اگر مربھی گئے تو اعلیٰ روایات اور احسن طریقہ کار آئندہ نسلوں کیلئے چھوڑ جائیں گے۔۔۔ جو روپیہ پیسہ اور بلاد کفر کی رہائشی ہونے سے زیادہ قیمتی ہے۔آج جدید دور کے انسانوں کا ٹیسٹ یہی ہے کہ نظام امامت کے قیام کیلئے کوششیں کرنے میں کون مشکلات، مصائب، مصیبتوں اور بلاؤں پر صبر کرتا ہے اور اپنے ہدف سے ہٹتا نہیں ہے، بلکہ اپنے ہدف کے حصول کیلئے ہر مشکل اور مصیبت کے ساتھ مزید مستحکم ہوجاتا ہے اور ہمت و طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کرتا ہے اور واقعاً اگر و ہ اصلاح کے قابل ہیں یا اگرموجودہ کرپٹ سسٹم کی وجہ سے برائی ہے تو اس کو نظر انداز کرتا ہے یا اگر اصلاح کے قابل نہیں ہے تو "مقصر "جان کر بھی نظر انداز کرتا ہے۔

اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے" ۔ انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں(سورہ بقرہ155،156،157)

تمام چھوٹے بڑے مسائل کی جڑ دنیا پر کرپٹ سسٹم کی حکمرانی ہے لہذا اس کو امامت سے replace کرنے کی جدوجہد کے بغیر نماز، روزے، حج، زیارات وغیرہ سب عبث اور بے کار ہیں اور بقول امام معصوم ؑ کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔(وسائل الشیعہ، کتاب الطہارۃ، باب 29)

ہماری خداوند تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا ہم سب کو نیک نیتی کے ساتھ اس ہدف کے حصول کیلئے جدوجہد کی مزید توفیقات عطا فرمائے اور ہم سب کو عبد خالص بنا کر اپنی جنت کا حقدار قرار دے۔

اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔(سورہ بقرہ/286)
آمین یا رب العالمین

سید جہانزیب عابدی

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58007 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.