حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ امّت روایات میں کھو گئی
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
انسان نے تو بے شمار ارتقائی منازل طے کیں اور کسی نہ کسی زاویہ سے آج بھی کل سے بہتر مقام پر ہے اور آنے والے کل بھی آج سے آگے والے سنگِ میل پر ہی ہوگا لیکن افسوس کہ اس کی اصل پہچان مع اس کے سب سے اہم وصف "انسانیت" کو عروج و زوال کی کئی منازل طے کرنے کے بعدگزشتہ کئی دھائیوں سے زوال پذیر ہی پایا۔ انسان نے اپنے لباس، رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے کی روایات و آداب، سفری ذرائع اور گفتگو کے ذرائع میں بے پناہ ترقی کی اور کرتا چلا جا رہا ہےجس کی بنیادی وجہ ایک دوجے پر تنقید نہ کرنا بلکہ ایک دوسرے سے سیکھنا دو اہم نکات ہیں۔البتّیٰ ان معاملات میں چند اقوام بہت ترقی یافتہ کہلائیں جبکہ دیگر ترقی پذیر۔میرے خیال میں مذکورہ تمام معاملات میں جس قدربد تہذیبی و بد تمیزی دکھائی گئی اتنا ہی اس کو فیشن سمجھ کر نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ ترقی یافتہ انسان یا قوم کہلانے کے لئے اس کو لازم قرار دیا گیا جس کے باعث احساسِ کمتری کا شکا ترقی پذیر انسانوں اور اقوام نےاس کی پیروی کرنا لازمی قرار دے دیا۔ نتیجتاً انسان کا اصل وصف "انسانیت" بے توجّہی کا شکار ہوکر روایتی ترقی یافتہ اعمال میں کہیں گُم ہو گیا۔جس موقع پر شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمداقبال نے کہا "حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ امّت روایات میں کھو گئی"۔میرے خیال میں اقبال نے اُمّت قران کو سامنے رکھ کر محمدﷺ کے پیروکاروں کو کہہ کر مخاطب کیا اور بے شمار ایسے اشارے دے کر سمجھانے کی کوشش کی کی کسی طرح یہ لوگ حقیقت کی جانب لوٹ آئیں، آج بھی تقریباً ہر بڑا اور مستندعالمِ دین اپنے وعظ میں اقبال کے کلام کا سہارا لے کر اپنی دلیل میں مضبوطی لانے کی کوشش کرتا ہے، کہنے کی حد تک، عمل میں اس کے بھی کوئی ایسی شے نمایاں نہیں ہوتی جو حقیقت کو چھو کر بھی گئی ہو۔
|