غم ہو تو ایسا
(Hamza Javed 16, Khadro district sanghar)
تبدیلی کی امید
*اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں غم کا عنصر رکھا ہے یہ غم بھی ایک قیمتی اثاثہ ہے اگر اسے صحیح جگہ استعمال نہ کیا جائے تو یہ بھی بہتے ہوئے پانیوں کی طرح ضائع ہو جائے گا غم ادنی بھی ہوتا ہے اور اعلی بھی اگر زندگی کا رخ متعین نہ ہو زندگی بے مقصد ہو تو ادنی غم سے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے جیسے گھر کا غم، کپڑوں کا غم، گاڑی کا غم، اپنی ناقدری کا غم، چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کا غم، بھائی کا، ماں کا، بیٹی کا، بہن کا، ساس کا، ان چھوٹے چھوٹے غم سے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور اس غم کے عنصر کو ہم بہت غلط استعمال کرتے ہیں ہم اس سے اپنے گھر کی محبت، چاہت، جذبات اور خوبصورت رشتوں کو تباہ کر دیتے ہیں ۔ ہم ایک دوسروں کی باتوں کو بھلاتے نہیں ہیں اور پھر اس طرح سے کہتے ہیں۔۔۔۔ بیٹا وہ فلاں موقع پر پھوپھو نے کیا کہا تھا چاچی نے کیا طعنہ دیا تھا میں کچھ بھول رہی ہوں تمہیں یاد ہے اور فرمانبردار بچے فٹ سے جواب دیتے ہیں ہاں ہاں مجھے یاد ہے یہ یہ کہا تھا اور اس طرح سے ہم بچوں کی تربیت کر رہے ہیں اور جیسے اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ خوشیاں بانٹوں گے تو خوشیاں آپ کے حصے میں بھی آئیں گی اور اگر آپ اس طریقے کی چیزیں بانٹیں گے تو یہ بھی آپ ہی کے حصے میں آئیں گی اپ کو کیا لگتا ہے کہ جس طرح سے آپ تربیت کر رہے ہیں بڑے ہو کر یہ آپ آپ کا خیال رکھیں گے تو آپ غلط ہیں ۔۔۔۔اور غم کے ساتھ اللہ پاک نے انسان کی فطرت میں بھولنے کی عادت بھی رکھی ہے مگر ہم ایسی باتوں کو نہیں بھولتے جنہیں بھول جانا چاہیے اور انہیں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور وقتا فوقتاً دہراتے رہتے ہیں یہ ہمیں ہی تکلیف پہنچاتا ہے میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ دنیا کو بالکل چھوڑ دیں دنیا کی تعلیم حاصل نہ کریں گھر نہ بنائیں گاڑی نہ لیں یہ سب بھی آپ کریں لیکن ایک دائرے کے اندر ہمیں ان چیزوں کا غم نہیں کرنا غم ہمیں اپنی آخرت کا کرنا ہے غم ہمیں اپنے اعمالوں پہ کرنا ہے ہم اپنی زندگی کا ہر ایک کام اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنا ہے تو غم کا طریقہ بھی کیوں نہ انہی سے سیکھا جائے اپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے لیے بڑے غمزدہ رہتے تھے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم کی شدت کی قوت اتنی ہے کہ اپ رکتے نہیں ٹھہرتے نہیں ہمت نہیں ہارتے مایوس نہیں ہوتے ہاں لوگوں کو جہنم کی دہکتی آگ سے بچانے کا غم ان پہاڑ جیسے غموں پر امنڈتے جذبات پر اللہ کی طرف سے صبر کے بند باندھنے کی مسلسل تاکید و تربیت کا نتیجہ۔۔۔ایمان کے نور اور روشنی کا وہ سیلاب پھوٹا جس نے گھر گھر روشنی پھیلا دی اس نے جزیرے نما عرب کو روشن کیا۔۔۔۔اسی طرح سے امت مسلمہ کی حالت زار کاغم پریشان حال پاکستان کا غم یہ اپنانے چاہیے اور آخر میں ایک چھوٹا سا ایمان تازہ کرنے والا واقعہ سناتا ہوں ۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے زانوں پر سر رکھ کر سو رہے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی انکھ سے انسو ٹپکے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انکھ کھل گئی فکر مند ہو کر پوچھا ۔۔۔! اے عائشہ تمہیں کس غم نے رلا دیا جواب آنے سے پہلے ذرا غور کر لیجئے کہ حضرت عائشہ کمسن تھی اس عمر کے شوق خواہشات پر نظر رکھیں پھر یہ بھی یاد رہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسے محبوب شوہر پر اتنی اور ازواج مطہرات کی شراکت بھی لیے ہوئے تھی لیکن یہ تو گھر ہی دوسرا تھا اس کے غم بھی دوسرے تھے آنسوؤں کی لڑیاں پروتے ہوئے ام المومنین سیدہ عائشہ گویا ہوئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جہنم کی یاد آگئی تھی اس کے خوف نے رلا دیا۔۔۔اللہ اکبر*
*اللہ پاک ہمیں بھی ایسے غموں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین*