کوانٹیٹی ہے ،کوالیٹی اچھی نہیں!

اس وقت ہمارا سماج مختلف سماجی اور اخلاقی بُرائیوں کا شکارہے،خصوصاً نوجوان بے راہ روی کا شکارہورہے ہیں،سماج کی بیشتر بداخلاقیاں اور بدکرداری ہمارے نوجوانوں میں دیکھی جارہی ہے،ان بُرائیوں کی وجہ سے نہ صرف نوجوانوں کی زندگیاں تباہ بربادہورہی ہیں،بلکہ پورامعاشرہ ان بُرائیوں کی وجہ سے تباہ ہورہاہے۔نوجوانوں میں جو بُرائی سب سے زیادہ دیکھی جارہی ہے وہ ڈرگس کا استعمال ہے،جس کی وجہ سے یہ نوجوان پوری طرح سے اپنا وجود کھوتے جارہے ہیں،نہ ان میں سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کی صلاحیت باقی ہے ،نہ ہی یہ نوجوان جسمانی اور ذہنی طورپر مضبوط ہیں۔آئے دن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لڑکیاں مرتددہورہی ہیں یااچھے جوڑوں کے انتظارمیں اپنی عمریں گنوارہی ہیں۔ایسانہیں ہے کہ مسلمانوں میں لڑکوں کی شرح پیدائش میں کمی آئی ہے بلکہ مسلمانوں میں لڑکیوں کے برابریا اُس سے زیادہ لڑکے موجودہیں،مگر یہاں معاملہ کوانٹیٹی کا نہیں بلکہ کوالیٹی کا ہے،اچھی کوالیٹی نوجوانوں میں نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان لڑکیاں اُن لڑکوں سے دورہوتی جارہی ہیں اور وہ غیروں کے چکرمیں اپنے آپ کو سونپ رہی ہیں،ملحدہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔اسی طرح سے نوجوان نسل میں گانجہ ،افیم اور دوسری نشہ آوار چیزوں کے استعمال سے نوجوان پوری طرح سے ناکارہ ہورہے ہیں،بے روزگاری کاشکارہورہے ہیں اوراعلیٰ تعلیم سے دورہورہے ہیں۔ایسے میں کونسی لڑکی ایسے نوجوانوں کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کیلئے تیارہوگی؟۔نشہ اس قدرتیزی کے ساتھ نوجوانوں پر حاوی ہورہاہے کہ ان نوجوانوں کو بچانا اب سماج کی ذمہ داری ہوچکی ہے۔ہر دن سینکڑوں نوجوان نشےکی اس بُری عادت سے اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں،مگر ان کی بازآبادکاری یا اصلاح کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاجارہاہے۔جن والدین کو اپنے ان بچوں کی کمیاں اور خامیاں معلوم ہیں وہ بھی اپنے بچوں کی اصلاح کیلئے تیارنہیں ہیں۔والدین یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگران کے بچوں کی ان خامیوں کو کسی کے سامنے بیان کیاجاتاہے تو اس سے ان کی عزت چلی جائیگی،سماج میں ان کا رتبہ کم ہوجائیگا اور وہ سماج میں کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں بنیں گے۔دراصل والدین کی اسی سوچ اور کم عقلی کی وجہ سے نوجوان سیدھے راستے پر آنے میں ناکام ہورہے ہیں،بھٹکے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے اگر والدین کی طرف سے تھوڑی کوشش ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف ان کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا بلکہ ان کی نسلیں بھی سکون کی زندگی گذار پائینگے۔آج میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ نشے کا شکارہونےوالے نوجوانوں کو بہت کم وقت میں سیدھے راستے پر لایاجاسکتاہے اور اس کام کو اظہارباہربھی نہیں کیاجاتا،مگر والدین کو اس سمت میں پہل کرنے کی اشد ضرورت ہے،جب تک والدین وہ سرپرستوں کی طرف سے ایسے معاملات پر غوروفکر نہیں کیاجاتا،اُس وقت تک نوجوان نسل کو صحیح راہ نہیں دکھائی جاسکتی۔موجودہ دورمیں نوجوان نسلوں کی اس نشہ خوری کی عادت سے ہی مسلمان پسماندہ ہوتے جارہے ہیں،اب تو یہ وباء سلم علاقوں سے نکل کر اونچے گھرانوں تک پہنچ چکی ہے،جن گھرانوں سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی اُن گھروں کے نوجوان نشے کے عادی ہوچکے ہیں۔نشے کی عادت ایک وباء ہے جو کبھی بھی کسی بھی نوجوان کو اپنا شکاربنا سکتی ہے۔حالانکہ ہر والدین کو اپنا بچہ نیک وصالح دکھائی دیتاہے لیکن پس پردہ یہ نوجوان تباہی کی راہ اختیارکئےہوتے ہیں،اگر ان نوجوانوں کو تباہی کے آخری مرحلے میں بچانے کی کوشش کی جاتی ہے تویہ کوشش ناکام ہوگی،اس لئے پانی سر تک پہنچنے سے پہلے والدین اپنے بچوں کو بچاسکتے ہیں۔نوجوانوں کی نسلوں کو تباہی سے بچانے کیلئے صرف والدین ہی اہم کردار اداکرسکتے ہیں،اس کے علاوہ سماج کے وہ ذمہ داران جو سماجی کارکن کہلاتے ہیں وہ بھی اس کام کو تحریک سمجھ کر آگے آسکتے ہیں۔کیونکہ سب کو ملاکرہی سماج بنتاہے اورجب مسلمانوں کی نوجوان نسل نشے کی عادت میں تباہ ہوجائے تو کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنا مستقبل اچھا پائینگے۔اس لئے اب وقت آگیاہے کہ اب سماج کو گانجہ اور دیگر نشے کی چیزوں سے بچانے کیلئے ایک تحریک کی شکل میں آگے آناہوگا۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.