میرے لخت جگر کو بازیاب کراؤ ہم یہاں سے چلے جائیں گئے

یہ الفاظ یہ التجا ایک مجبور بے بس باپ دیپک کمار کی ہیں جو اپنے معصوم بچے دیپ کمار کی بازیابی کے لیے آئی جی غلام سندھ غلام نبی میمن سے التجا کررہے ہیں۔یقین کریں گے ایک ہفتہ ہوگیا ہے یہ سین اور یہ الفاظ بار بار میرے دماغ سے ٹکراتے رہے ہیں جب بھی التجا والی پوسٹ ویڈیو پر نظر پڑی تو مجھ جیسا انسان جس نے زندگی میں ہر طرح کی سردی گرمی اونچ نیچ دیکھی ہے اس کے باوجود آنسوں نکل آتے ہیں میں کہتا ہوں جس جس نے بھی مغوی معصوم دیپ کمار کے والد دیپک کمار کی حالت دیکھ لی وہ اپنے آنسوں کو کسی بھی صورت روک نہیں پائے گا ۔کیونکہ اﷲ پاک نے ہر انسان میں احساسات جذبات دوسروں کی دردوتکلیف کو سمجھنے کے لیے سینے میں دل رکھا ہر دل رکھنے والے کی میں سمجھتا ہوں کیفیت مجھ سے مختلف ہرگز نہیں ہے اگر کیفیت مختلف ہے تو اغواکر درندوں کی یا ان کے سر پرستوں کی یا پھر کسی کے سینے میں دل نہیں ہے توہمارے آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے کیونکہ انھیں دیپک کمار کے آنسونظر آئے نہ ہی ان کی بے بسی لگتا ہے ان کے حواس خمسہ میں سے کسی دوچیزکی کمی ضرور ہوگی جو ہر طرح صم بکم لگ رہے تھے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں صرف کشمورکندھکوٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں کے چالیس سے زیادہ افراد تاوان کیلئے آغوا کر لئے گئے جن میں چار بچے اور ایک خاتون بھی شامل ہے ان میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب محنت کش طبقے سے ہے یہ تعداد ان عاشق مزاج شادی اور دولت کے لالچیوں کے علاوہ ہے جو ملک بھر سے عشق کے ہاتھوں مجبور ہوکر محبوب کے ساتھ ملنے یہ عاشق مزاج کچے کا رخ کرتے ہیں اور پھر کچے میں مہمان نوازی کے لیے پہلے سے تیار بیٹھے یہ ڈاکوؤں عاشقوں کی لیتروں سے خوب خاطر مدارت کرکے ان کو زنجیروں سے باندھ کر ان کے ورثاء سے لاکھوں کا ڈیمانڈ کرتے ہیں ۔جو اکثران کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے تاہم اس ڈیمانڈ میں کمی بیشی ہوجاتی ہے بغیر پیسوں کے اکثر نعش ہی ملتے ہیں اس طرح کے واقعات بھی معمول بن چکے ہیں ۔جبکہ حکومت کی طرف سے ان کی روک تھام اور ڈاکوؤں کی سر کوبی کے لیے صرف اس پر اکتفاکیاگیا ہے کہ کچھ جگہوں پر بورڈ لگائے گئے ہیں اور کہیں ایک دو اخبارات میں یہ اشتہار دے کر خود کو مبرا سمجھ بیٹھے ہیں ۔چلو یہ تو ہوئے عاشق مزاج جن کو سزا دی جارہی ہے ۔یہ لوگ تو بیس ،تیس لاکھ تاوان ادا کرکے رہائی پاتے ہیں ۔میں یہاں پر معصوم دیپ کمار ان جیسے دیگر کمسن معصوم بچوں اور سچل کمپنی کے مزدوروں کا ذکر کررہا تھا جن کو ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے جن کی رہائی کیلئے ڈاکوں ایک بھاری رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ جو ابھی تک ڈاکوں کے چنگل سے آزادی نہیں پاسکے ۔بھلا اتنی بڑی رقم مزدور کہاں سے لائیں گئے ۔ان مغویوں کے ٹارچرکردہ ویڈیو ڈاکوں تاوان کیلئے ان کے ورثاء کو بھیجتے ہیں تو ہم جیسے افراد بھی وہ ویڈیوز دیکھنے کی طاقت نہیں کر سکتے ہیں آپ اندازہ کریں ان ویڈیوز کو دیکھکر ان کے ورثاء پر کیا گزرتی ہوگئی ۔اس بات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے آغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا دائرہ اس وقت سندھ اور سندھ سے ملحقہ بلوچستان کے اضلاح اوستہ محمد جعفرآباد صحبت پور سمیت صادق آبادپنجاب کے سرائیکی بیلٹ تھ پھیلا ہوا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ان ڈاکوں کی کوئی اوقات نہیں لیکن ان کی سرپرست بہت ہی طاقت ور ہیں آپ میں سے کئی ایک کو اچھی طرح سے یاد ہوگا 1992 سندھ کے علاقے دادو سے چینی انجینئر آغوا ہوئے تھے جن کی رہائی کیلئے تاوان کی رقم مبینہ طور پر اس وقت کے سندھ حکومت نے ادا کی اور اس میں سے حصہ اس وقت کے ایک ایم این اے نے بھی وصول کیا تھا کچھ عرصہ قبل میرے شہر کا ایک نوجوان معروف تاجر حاجی محمد اسلم سومرو کا بیٹا اوستہ محمد ڈیرہ اﷲ یار کے درمیان سے آغوا ہوا واقعے کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دی جس پر پولیس نے ملزمان کا تعاقب کیا اور سندھ کے حدود جاگیر میں آغوا کار ڈاکوں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں سب انسپکٹر سمیت پولیس کے چھ جوان شہید تین زخمی ہوئے ڈاکومغوی کو لے کر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔سندھ بلوچستان پولیس وہاں مشترکہ آپریشن بھی کیا لیکن ڈاکو اتنے طاقتور کے آپریشن والے علاقے کے تھانے کے دو باوردی پولیس اہلکاروں کو آغوا کرکے ان کی ویڈیو بنائی جس میں وہ نہ صرف ان پولیس اہلکاروں کو مارپیٹ کررہے تھے بلکہ پولیس کے اعلی ٰ آفیسران کو گالیاں دے رہے تھے کہ ہمارے بے قصور افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ان کی رہائی کے عوض ہم تمھیں چھوڑیں گئے ۔ خیر مغوی تاجر تو با حفاظت بازیاب ہوگئے تھے جن کے بارے میں پولیس نے اپنی پریس کانفرس میں بتایا کہ آپریشن کے دوران ڈاکو مغوی کے ساتھ اپنا ٹھیکانا تبدیل کر رہے فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں ڈاکو مغوی کو چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔جبکہ دوسری جانب اس کے برعکس لوگوں کا کہنا ہے انتہائی با اثر افراد کے پریشر کی بدولت رہائی ممکن ہوئی تو کوئی تین سے پانچ لاکھ تاوان بھرنے کی باتیں بھی کررہے ہیں خیر نوجوان تو باحفاظت واپس تو ہوگیا ہے لیکن ایک پریشانی کی صورت حال تو بنی ہوئی ہے ،۔آغوا کار ڈاکوں کے سرغنہ کا باپ مبینہ طور پر اوستہ محمد پولیس کے ساتھ ایک مقابے میں مارا گیا تو ڈاکوں نے دو اضلاع کے پولیس کو وارننگ دی کہ ہم اس کا بدلہ ہر حال میں لیں گئے جس کے باعث کئی روز تک علاقے میں ایک خوف کی سماں پیدا ہوگئی اور شہری کئی روزتک سہمے سہمے ہوئے تھے آج کی اطلاعات کے مطابق کشمور پولیس تھانہ کے ایس ایچ او ۔انسپکٹر گل محمد ایک مغوی کی بازیابی کیلئے کچے کے قریبی علاقے میں ریڈ کیا تو ڈاکوں نے تمام پولیس پارٹی کو یر غمال کر لیا بتایا جاتا ہے کہ انسپکٹر گل محمد کچھ عرصہ قبل ڈاکوں کی فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے تھے ۔دیکھا جائے تو ڈاکوں کے خلاف آپریشن کی باتیں ہر دور میں سنتے آرہے یہاں آپریشن ہورہا ہے وہاں پر ہورہا ہے لیکن اس کے نتائج صفر برآمد ہوتے آئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے آپریشن شروع ہوتے ہی ناکام ہونے کے کئی اسباب ہیں جن میں اول یہ ان کے سرپرستی کرنے والے انتہائی با اثر ہیں دوئم پولیس میں بھی کالی بھیڑیں بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔لیکن آج کے اس جدید دور میں جدید کیمونیکیشن کے ہوتے ہوئے کوئی چیز پولیس اور دیگر اداروں کی دسترس سے باہر نہیں ہے ۔بس صرف سچی نیت سے کاروائی شروع کی جائے کامیابی یقینی ہے نیت صاف منزل آسان ۔ایک بات جو ہر ایک کے منہ میں ہے اگر کچے کے ڈاکوں کے خلاف کاروائی کرنی ہے تو پہلے پکے کے ڈاکوں سے نمٹناضروری ہے ۔حالیہ بد امنی کی لہر کو دیکھتے ہوئے کندھکوٹ کشمور ٹھل جیکب آباد سمیت بلوچستان سے کئی ایک ہندو پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں کئی ایک جانے کی تیاری میں بد امنی کی وجہ سے نہ صرف ہندو بلکہ کئی مسلمان تاجر بھی پاکستان چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑ رہے ہیں ۔یہ تو سرمایہ دار ہیں جو کسی بھی ملک میں جاکر سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں ۔غریب جو دو وقت کی روٹی کیلئے سخت پریشان ہے وہ کہاں جائے اور اپنوں کی رہائی کیلئے لاکھوں روپے کہاں سے لائے ۔یہی حالات رہے تو ایک دن یہی غریب جو ظلم ذیادتی کے شکار رہے ان ظالموں کے خلاف ہیں ایک دن ہتھیار اٹھالئے تواس آگ سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا اور سب کچھ جلا کر بھسم کر دے گئی ۔نیز میں ان بد بخت ڈاکوں سے بھی اپیل کرتا ہوں خدا کیلئے غریب جو پہلے ہی دوقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں خداکیلئے ان غریبوں اور معصوم بچوں کو معاف کریں آپ لوگ چاہے کتنے طاقتور ہوں بیشک پولیس انتظامیہ ادارے تم لوگوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہیں ۔اﷲ تعالی کی لاٹھی بے آواز ہے اس کی پکڑ بہت سخت ہے ۔کالم تحریر کرتے وقت اطلاع ملی ہے کہ بد نام زمانہ ڈاکو ماجد عرف مٹھوشاہ ایک جیکب آباد کے قریب ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا مٹھوشاہ بلوچستان کے چھ پولیس اہلکاروں کی قتل سمیت چالیس سے زیادہ مقدمات میں سندھ بلوچستان پولیس کو مطلوب تھا جس کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر پولیس کی جانب سے تیس لاکھ ہیڈ منی رکھنے کی سفارش کی گئی تھی مٹھو شاہ اپنے گروپ کا سرغنہ تھا واضع رہے کچھ عرصہ قبل ان کے والد بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا تھا جبکہ اس کے دیگر دو ساتھی بھی پولیس مقابے میں مارے گئے ۔جوکہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے
 

Waris Dinari
About the Author: Waris Dinari Read More Articles by Waris Dinari: 7 Articles with 3537 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.