تاریخ کے مختلف ادوارمیں اگر
حقوق نسواں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار
نہیں کہ اسلام سے قبل کی تمام تہذیبوں میں چاہے وہ یونانی ہوں ، رومی یا
ایرانی ہوں یا عربوں کا دور جہالت ہو عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی محروم
رکھا جاتا تھا۔یونان جو تہذیب و ثقافت میں اور فلسفے میں اپنا کوئی ثانی
نہیں رکھتا تھا وہاں بھی عورت کو مرد کی نفسانی تسکین کا باعث سمجھا گیااور
عورت کو ”شجرةمسمومة“ یعنی ایک زہر آلود درخت کہا گیا۔ روم کے عوام نے بھی
یونانی فلسفہ سازوں کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں کے معاملے میں یہ قانون سازی
کی : عورت کے لئے کوئی روح نہیں بلکہ وہ عذاب کی صورتوں میں سے ایک صورت
ہے۔الغرض تمام تہذیبوں اور معاشروں نے کسی نہ کسی طور عورت کو کم تر ثابت
کیے رکھا اور اسے مرد کی باندی اور غلام بنائے رکھنے کے لیے ہر ممکن
اقدامات کیے ۔یہاں تک کہ عرب جہالت اور درندگی میں بقیہ تمام تہذیبوں کو
پیچھے چھوڑ گئے جہاں وہ اپنی نو مولود لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے اور اس
پر فخر کرتے تھے۔
مختصراً یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی
تہذیبوں نے عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا ہوا تھا اور اسے معاشرے
میں اس کی حیثیت کے مطابق رتبہ اور مرتبہ نہیں دیا تھا۔ مگر اسلامی تہذیب
وتمدن نے عورت کو عظیم مقام و مرتبہ دیا جس کی وہ مستحق تھی۔ یہ اسلام ہی
کی تعلیمات تھیں کہ عربوں کی سرزمین پر محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن،بیوی، بیٹی اور بہو کے حقوق دلائے اور عورتوں
کو بھی ان کے فرائض بطریق احسن سر انجام دینے کی تعلیم دی ۔ اسلام کی آمد
کے بعد سے دنیا میں آگاہی کے نئے در کھلے اور عورتوں سمیت دیگر پسے ہوئے
طبقوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے قانون سازی کی گئی۔مگر جس طرح سے اسلام نے
عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں قوانین وضع کیے ہیں مغربی معاشرہ اپنی تمام تر
روشن خیالی کے باوجود آج بھی عورتوں کو اپنے معاشرے میں وہ مقام و مرتبہ
اور حیثیت نہیں دے سکا جو اسلام نے پہلے دن سے عورتوں کے لیے مختص کر رکھی
ہے۔
یورپ جو حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار بنتا ہے اس نے بھی عورتوں کے
حقوق سلب کرنے میں دیگر تمام تہذیبوں کے شانہ بشانہ کام کیا جیسا کہ
576ءمیں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس اس مسئلہ کے حل کے لئے منعقد کی کہ عورت
میں روح ہے یا نہیں؟ اس کانفرنس میں شریک ایک پادری نے سوال اٹھایا کہ عورت
کا شمار بنی نوع انسان میں ہے بھی یا نہیں؟ خود اس نے عورتوں کو انسانوں
میں شامل کرنے سے انکار کردیا۔آخر کار اس کانفرنس نے فیصلہ کیا کہ عورت صنف
انسانی سے تعلق رکھتی ہے مگر صرف اس دنیاوی زندگی میں مرد کی خدمت کرنے کے
لئے اور قیامت کے روز تمام عورتیں غیر جنس جانداروں کی شکل میں ظاہرہوں
گی۔اسی طرح کی عورتوں کے حقوق سلب کرنے کی دوسری مثال برطانیہ کے آٹھویں
بادشاہ ہنری کے دور حکومت میں پیش آئی جس میں پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا
کہ عورتوں کو انجیل پڑھنے کی آزادی نہیں ہے کیوں کہ عورتوں کو برطانیہ جیسے
مہذب معاشرے میں ناپاک تصور کیا جاتا تھا۔ عورتوں کے حقوق کی تنظیم کی
سیکرٹری جنرل میشل اندرے یورپ میں عورتوں کی حالت زار سے متعلق کہتی ہیں :
عورتوں کی نسبت جانوروں سے زیادہ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر
کسی کتے کو سڑک پرکوئی زخمی کر دے اس کی رپورٹ درج کروائی جاتی ہے لیکن اگر
کوئی مرد اپنی عورت کو سرعام سڑک پر مارے تو اس کے لئے کوئی قانون حرکت میں
نہیں آتا گویا مغربی معاشرے میں ایک کتے کی حیثیت عورت کی حیثیت سے زیادہ
ہے ۔علامہ اقبال نے یورپ کی اسی بے راہ روی اور بد چلنی کو دیکھتے ہوئے کہا
تھا :
یہی ہے فرنگی معاشرے کا کمال مرد بے کار و زَن تہی آغوش
مغربی معاشرے میں عورت کے ساتھ ناروا سلوک کو دیکھتے ہوئے غیر مسلم مفکرین
نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام میں
عورتوں کے اعلٰی و ارفعیٰ مقام کی داد دی۔ ایک یورپی مفکر ای بلائیڈن لکھتے
ہیں: سچا اور اصلی اسلام جو محمدلے کر آئے اس نے طبقہ نسواں کو وہ حقوق عطا
کئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو پوری انسانی تاریخ میں نصیب نہیں ہوئے
تھے۔اسی طرح ڈبلیولائٹرر لکھتے ہیں: عورت کو جو تکریم اور عزت محمدنے دی وہ
مغربی معاشرے اور دوسرے مذاہب اسے کبھی نہ دے سکے۔ای ڈرمنگھم آنحضور کی
تعلیمات کو سراہتے ہوئے اپنی کتاب میں کہتے ہیں:اس سے کون انکار کرسکتا ہے
کہ محمد کی تعلیمات نے عربوں کی زندگی بدل دی ان سے پہلے طبقہ نسواں کو
کبھی وہ احترام حاصل نہیں ہوسکا تھا جو محمدکی تعلیمات سے انہیں حاصل
ہوا۔جسم فروشی، عارضی شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دیدی گئیں۔
لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس سے قبل محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان
سمجھا جاتا تھا کو بھی حقوق ومراعات سے نوازا گیا۔ڈبلیوڈبلیو کیش کہتے ہیں
”اسلام نے عورتوں کو پہلی بار انسانی حقوق دئے اور انہیں طلاق کا حق دیا۔
مختلف تہذیبوں اور ادیان کی روشنی میں ہم نے عورت کو درپیش مسائل اور
معاشرے میں عورت کی حیثیت پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی آئیے اب پاکستانی
معاشرے میں رہنے والی عورتوں کے حقوق، مسائل اور ان مسائل کے حل کے لیے کیے
جانے والے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرہ ایک مسلم معاشرہ ہے
جس کی اپنی اخلاقی اور روحانی قدریں ہیں۔ جس دین اسلام نے عرب جیسی اجڈ اور
گنوار سرزمین پر بسنے والی عورت کو اس کے حقوق دلانے میں اہم ترین کردار
ادا کیا اسی دین اسلام کے پیروکاروں نے سرزمین پاکستان کے قیام کو عملی
جامہ پہنایا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لیے روز
اول سے ہی قانون سازی کی جاتی رہی ہے اگرچہ عورتوں کو اس معاشرے میں بے
پناہ مسائل درپیش ہیں جن میں کاروکاری ، ونی، ستی جیسی جاہلانہ رسوم کے
ساتھ ساتھ کم عمری کی شادیاں، جہیز جیسی لعنت کا عام ہونا ،گھریلو تشدد ،
موزوں رشتوں کی نا فراہمی شامل ہیں ۔ مگر ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے
علمائے کرام، سیاست دان حضرات ، اساتذہ کرام اور این جی اوز سے وابستہ سوشل
ورکرز نے خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے ۔ بد قسمتی سے چند
افراد نے اس مسئلے میں بھی ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے منفی اقدامات
بھی کیے ہیں اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی تعمیر بھی جارکھی ہے ۔ دراصل
پاکستانی معاشرہ میں قانون کی حکمرانی اور عملداری کا تصور کمزور ہے یہی
وجہ ہے کہ عورتوں کے خلاف فرسودہ اور جاہلانہ رسوم و رواج کا سلسلہ آج بھی
جاری ہے۔ آئیے پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹس کا جائزہ
لیتے ہیں جن سے ہمیں خواتین کو درپیش مسائل کا صحیح طور ادراک ہو سکے گا۔
اگرچہ دین اسلام ہی وہ واحد ضابطہ حیات ہے کہ جس نے عورت کو ہر لحاظ سے اس
کے جائز حقوق مہیا کیے اور عورت کو سماجی، معاشی، سیاسی، قانونی اور ہر
لحاظ سے مردوں کے مساوی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اسلامی تعلیمات کا پرچار
کیا تو جاتا ہے مگر حقیقتاً اسلامی احکامات کی عملداری میں چشم پوشی اختیار
کی جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی خواتین کے حقوق کویکسر نظر
اندازکیا جاتاہے اور خواتین بہت سے سماجی، معاشی اور قانونی مسائل کا شکار
نظر آتی ہیں۔ڈوئچی ویلے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی معاشرے میں گھریلو
جھگڑوں، غیرت کے نام پر قتل، اغوا برائے تاوان، جنسی تشدد، خودکشی اور قتل
کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سال2011 ءکے پہلے چھ
ماہ میں خواتین کے خلاف تشدد میں 12فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال رواں
کے پہلے چھ ماہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 389 کیس رجسٹر ہوئے جن میں
سے دیہی علاقوں میں 246 اور شہری علاقوں میں 143 قتل ، اغوا، عصمت دری اور
تشدد کے کیسز شامل ہیں۔صوبہ خیبر پختونخوا ہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں
میں خواتین کی آبادی51 فیصد سے زائد ہے تاہم جہاں ان علاقوں میں خاندانی
دشمنی کے خاتمے کیلئے خواتین کو ”سورہ“ کے طور پر دیا جاتا ہے وہاں خواتین
کو غیرت کے نام پر قتل کرنا بھی معمول کی بات ہے بلکہ اس قتل کو عزت و غیرت
کا نشان اور پختون روایات کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مقابلے
میں یہاں مقیم افغان مہاجرین میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات کی شرح
زیادہ ہے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر یا تو رپورٹ نہیں ہوتے یا پھر مقامی
آبادی کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔اسی طرح اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں
بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں تقریباً 70 فی صد خواتین کو کسی نہ کسی شکل
میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 15
سے 44 سال کی خواتین کو سرطان جیسے موذی مرض، جنگ اور حادثوں کی نسبت زیادہ
خطرہ تشدد کے واقعات سے ہے۔پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ملک میں
ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کی جاتی ہیں۔ جبکہ
انسانی حقوق کے ایک اور ادارے ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں 90 فی
صد خواتین کو کسی نہ کسی وقت گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتاہے۔اقوام متحدہ
کے خواتین کے خلاف ہرقسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے کنویشن ”
سمیڈا“پردستخط کرنے کے باوجود پاکستان میں خواتین کی حالت زار میں بہتر ی
نہیں آئی ۔ہیومن رائٹس آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہردوگھنٹے بعد
ایک عورت سے زیادتی کی جاتی ہے۔بے حرمتی اورگھریلو تشددکی شرح بہت زیادہ
ہونے کے باوجود حکومت ان جرائم کوروکنے میں کوئی دلچسپی نہیںرکھتی اور اکثر
ہی یہ واقعات بدنامی کے خوف سے رپورٹ نہیں ہوتے۔ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ
2000ءکے مطابق پاکستان کے ہرتیسرے گھرمیں کسی نہ کسی خاتون ،لڑکی پرگھریلو
تشدد ہوتا ہے۔عورتوں کے خلاف تشددکے واقعات سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے
کہ ان جرائم کوریاستی تحفظ حاصل ہے اور گھریلوتشددکا شکارہونے والی خواتین
کوکوئی عدالتی تحفظ اورحمایت حاصل نہیں۔قانون نافذکرنے والے ادارے خواتین
پر گھریلوتشددکوایک نجی جھگڑاسمجھتے ہیں اورجوعورت اپنے خاوندکے تشدد یا
گھریلو تشدد کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرانا چاہتی ہے تواسے درج کرنے سے
انکارکردیا جاتا ہے۔ایشیاواچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میںپولیس 70فیصد
زیرحراست خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے۔بہت سے رسم ورواج بھی خواتین
پرتشدد کا باعث بن رہے ہیں جیسا کہ کاروکاری،بچپن کی شادی،وٹے سٹے کی شادی
اور قرآن پاک سے شادی کی رسوم ہیں۔غیرسرکاری تنظیموں کے ذرائع کے مطابق
پاکستان میں ووٹ ڈالنے کیلئے جانے والی خواتین کی 70فیصد تعداد کو اپنی
مرضی کے مطابق ووٹ دینے کاحق نہیں ہے۔67فیصد خواتین کوبچیاں پیدا کرنے کی
پاداش میں سسرالی رشتہ داروں کے تندوتیز جملوں کانشانہ بننا پڑتا ہے۔
سینکڑوں خواتین کوغیرت کے نام پرقتل کردیا جاتا ہے۔
اگرچہ اسلام نے عورت کے نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے مگر
ضرورت پڑنے پر عورت بھی مرد کے شانہ بشانہ حصول معاش کے لیے کام کر سکتی ہے
پاکستان میں بھی خواتین کھیتی باڑی جیسے سخت اور کٹھن کام کے ساتھ ساتھ
فیکٹریوں میں ملازمت اور دیگر شعبوں میں کام کر رہی ہیں ۔ پاکستان کے غریب
اور دور دراز علاقوں کے مقیم افراد اپنی چھوٹی بچیوں کو بھیک مانگنے کے لیے
بھیجتے ہیں اس وقت ان کی عمریں تین سال تک ہو تی ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ لوگ ان لڑکیوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یوں یہ لڑکیاں جسم
فروشی جیسے گھناؤنے کاروبار میں لگ جاتی ہیں ۔ راولپنڈی کے ایک سینئر
سپرنٹنڈنٹ پولیس راجہ شاہد نے این بی سی کے پاکستان میں موجود نمائندگان کو
انٹرویو دیتے ہوئے کہا :جسم فروشی کاکاروبار پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں
تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانون کی
عملداری میں کئی رخنے ہیں جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں ملزموں کو
پکڑنے کے لیے چھاپے مارنے پڑتے ہیں مگر ہم مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر چھاپہ
نہیں مار سکتےجب تک ہمیں اجازت ملتی ہے ہم موقع گنوا دیتے ہیں۔
تعلیم یافتہ خواتین کو اب پاک فوج، نیوی، ایئر فورس کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ
اور طب کے شعبوں میں بھی خدمات سر انجام دینے کے مواقع میسر ہیں ۔یہی نہیں
پاکستانی خواتین کو کھیلوں کی دنیا میں بھی پذیرا ئی مل رہی ہے گزشتہ سال
گوانگ ژو ، چین میں جاری سولہویں ایشین گیمز میں پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم
کی کامیابی کو جس طرح سے حکومتی سطح پر اور عوامی سطح پر سراہا گیا وہ قابل
تعریف ہے۔اگرچہ بہت سے لوگوں نے کرکٹ ٹیم اور دیگر خواتین کھلاڑیوں پر طرح
طرح کے الزامات بھی لگائے مگر اجتماعی طور پر خواتین کھلاڑیوں کی حوصلہ
افزائی اس بات کی غمازی ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں شعور اجاگر ہو رہا ہے۔
خواتین کی ایک معقول تعداد پارلیمان کی رکن بھی ہے یہ بات انتہائی خوش آئند
ہے کہ موجودہ پاکستان کی پارلیمان میں سپیکر ایک خاتون ڈاکٹر فہمیدہ مرزا
ہیں اوردیگر دو اہم وزارتوں جس میں وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ شامل ہیں
کا قلمدان بھی فردوس عاشق اعوان اور حنا ربانی کھر کے پاس ہے ۔اگر چہ
پاکستان میں اعلٰی عہدوں پر خواتین تعینات ہیں مگر اس کے باوجودخواتین کا
معاشرتی اور معاشی استحصال ہورہا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ تمام
قانون سازی مرد حضرات کرتے ہیں جب کہ عورتوں کی اس سلسلے میں شمولیت اور ان
کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی مزید براں پاکستان میں آئین کی بالادستی اور
قانون کی عملداری بھی ناتواں ہے۔اس لیے فیکٹریوں ، کارخانوں اور پبلک
ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ مساوی سلوک برتا جاتاہے اور خواتین کو ہزیمت
اور پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔خیبر پختون خواہ اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں
پہلے ہی عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا مگر دہشت
گردی کے واقعات میں گرلز کالجز اور اسکولز کی عمارتوں کو بھی تباہ کر دیا
گیا ہے جس کے نتیجے میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مزید کم ہو گئے
ہیں ۔
اس معاشرتی تفریق کے بر عکس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے کہ خواتین کو
پاکستانی معاشرے میں چند خصوصی مراعات بھی دستیاب ہیں جیسا کہ خواتین کے
لیے الگ تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں فاطمہ جناح ویمن
یونی ورسٹی راولپنڈی اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سر فہرست ہیں۔ ان
تعلیمی اداروں میں داخلوں کے علاوہ طالبات مخلوط تعلیمی اداروں میں بھی
تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اگر تعلیم کے دوران لڑکی کا اچھا
رشتہ آجائے یا اس کے والد اور بھائی اس کی تعلیم جاری رکھنے کے حق میں نہ
ہوں تو لڑکی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہے اور وہ سیٹ ضائع ہو جاتی ہے جس
سے نہ صرف ملکی سرمایہ کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ایک اہل لڑکا جسے مستقبل میں
ایک خاندان کی کفالت بھی کرنی ہوتی ہے اس سیٹ سے محروم ہو جاتا ہے یہ ایک
ایسا معاشرتی مسئلہ ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں حائل ہے جس کی جانب نہ ہی
حکومتی سطح پر کچھ کیا گیا ہے نہ ہی کوئی اور ادارہ اس طرف توجہ کر رہا ہے۔
ہمیں پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے جہاں خواتین کے حقوق کے
لیے خصوصی قوانین وضع کرنے ہیں وہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ مردو
زن ہر دو فریق کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہے تاکہ دونوںفریق اپنے اپنے
حقوق اور فرائض کی بجا آوری بہتر طور پر کر سکیں۔ |