سیلاب نے ہمارے مُلک کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچادی ہے۔ اس طرح کا تباہ
کُن سیلاب کیوں آیا اور کہاں کہاں انسانی غفلت کے پہلو ہیں یہ تو ایک بحث
طلب معاملہ ہے جس پر بعد میں حکومت اور سیاست دان کوئی نہ کوئی دلائل اور
وجوہات تلاش کرتے رہیں گے۔ اس وقت تو سب سے سنگین مسئلہ لوگوں کی نہ صرف
بنیادی ضروریات پورا کرنا ہے بلکہ اُنہیں نفسیاتی مسائل سے بچانا ہے جن کی
طرف توجہ نہ دینے سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔خطرناک سیلاب
اچانک شہروں اور دیہاتوں میں داخل ہوگیا۔ لوگوں کو اتنے وسیع پیمانے پر
سیلا ب اور خطرے کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر اس آفت
ناگہانی کے لیے تیار نہیں تھے۔ جب پانی گھروں میں داخل ہوا تو لوگوں کو
خطرے کا علم ہوا۔ ایسی صورت میں نجانے کتنی بار سوچا گیا کہ کیا کیا جائے ۔
اپنے گھر اپنی چیزیں اپنی جمع پونجی ، مال مویشی ان سب کا کیا کیا جائے۔
آخر جب حالات جان بچانے کی حد تک پہنچے تو یہ لوگ مجبورا اپنے بچوں کو
اُٹھا کر اپنے خاندان کے ساتھ باہر نکلے ۔باہر کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ
تھے۔ ہر طرف پانی اور لوگوں کی آہ و پکار۔ ایک دوسرے کا سہارا لیتے ہوئے
گھر سے باہر تو نکل آئے لیکن آگے نہ منزل کا نشان اور نہ مستقبل کا پتا۔
ایسے میں بڑوں بڑوں کے حوصلے جواب دے دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اﷲ کے آسرے پر
اس بے سروسامانی کے عالم میں آگے بڑھتے رہے۔ان لوگوں کو اُمید کی ایک کرن
نے آگے بڑھنے پر مجبور کیا کہ جو لوگ محفوظ ہیں وہ مدد کو ضرور آئیں گے۔سب
سے پہلاصدمہ تو عدم تحفظ کا ہوا۔ گھر کی خواتین اور بچے سرراہ بیٹھے ہیں۔
کوئی پردہ نہیں۔ کہیں لوگ ایک خاندان کی صورت اور کہیں پر زیادہ لوگ مل جُل
کر بیٹھے ہیں۔ جس کے پاس جو کچھ کھانے پینے کو ہے وہ بانٹ لیتا ہے ۔خاص طور
پر کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ تر بچوں کو کچھ دے دیا جائے۔ بچے بھوک برداشت
نہیں کرسکتے حالات کو نہیں سمجھ سکتے ۔ وہ جس صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ اُسے
بڑے نہیں سمجھ سکتے ۔ بچوں کو سمجھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اُن کی
فکر والدین کو پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ کھانے پینے کا مسئلہ سب سے
بڑا مسئلہ ہے۔ ساتھ ہی خواتین اور بچوں کی حفاظت بھی پریشان کرتی ہے۔
سیلابی پانی کی وجہ سے کئی بیماریوں کا اندیشہ ۔ جن لوگوں کے پاس کچھ امداد
پہنچی ہے وہ بھی بے یقینی کے عالم میں ہیں کہ اُن کا کیا ہوگا اور جو امداد
کے منتظر ہیں وہ مایوس ہورہے ہیں۔ دوسرا بڑامسئلہ یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کا
رابطہ منقطع ہے۔ نہ تو ان کے سیاسی راہنماءان تک پہنچ رہے ہیں اور نہ کوئی
اور لوگ جن پر ان کو بھروسہ ہو کہ وہ ان کے لیئے کچھ نہ کچھ کریں گے۔ رابطے
کا فقدان بھی لوگوں کو ایک نئے غم و غصے میں مبتلا کر رہا ہے میڈیا جو کچھ
کہہ رہا ہے، کر رہا ہے۔ ہمارے لوگ جو بیانات دے رہے وہ ان لوگوں تک نہیں
پہنچ رہے ۔ ایسے مشکل وقت میں حوصلے اور تسلی کے الفاظ بہت بڑی نعمت ہوتے
ہیں۔ ان کی کمی انسان کے دل میں غلط فہمی پیدا کردیتی ہے اور جب اپنے لوگوں
پر اعتبار نہ رہے تو انسان دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کیفیت میں اُس کا
غصہ کسی نہ کسی صورت باہر آجاتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں فاقوں سے بچوں کو
کچھ ہوجائے تو یہ دہرا صدمہ برداشت نہیں ہوتا۔ہنگامی بنیادوں پر فوج اور
دیگر تنظیموں نے بہت بڑی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ہے۔ خاص طور پر ایسے
نازک اور تکلیف دہ موقع پر فوج کے ہر افسر اور سپاہی نے پھر یہ ثابت کر دیا
ہے کہ وہ قوم کا درد دل میں رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیں۔ وہ
ہر اُس جگہ پہنچ کر لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں ۔ جہاں دوسرے لوگ جاتے ہوئے
سوچتے رہ جائیں۔ ان فوجیوں کے اپنے خاندان کس حال میں ھیں اُنہیں اس کی
پرواہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے اپنے گھرانے اﷲکی حفاظت میں چھوڑے ہوئے ہیں۔ اور
خود رات دن ایک جذبے اور مشن کے ساتھ لوگوں کو حفاظت سے سیلاب زدہ علاقوں
سے نکال رہے ہیں ، کھانا پہنچارہے ہیں، جسمانی صحت کے لیے بھی سہولیات
فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود اس قدرتی آفت کی تباہی اتنے وسیع
پیمانے پر ہے کہ ہم ابھی تک اس کا احاطہ نہیں کر سکے۔ لوگوں کا دُکھ درد
اتنا زیادہ ہے کہ سب سے پہلے اُن کی بنیادی ضروریات پورا کرنا ہی مشکل
ہورہا ہے۔ جو لوگ آگے بڑھ کر ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ خودہی کچھ
نہ کچھ کر رہے ہیں یا فوج کو بھیج رہے ہیں۔ حکومت اور سیاسی لیڈروں پر
لوگوں کا اعتماد نہیں ہے جس کے نتیجے میں امداد بھی ضرورت مندوں تک نہیں
پہنچ رہی۔ ہمارے اسی رویے کو دیکھ کر باہر کے ممالک اور لوگ بھی بہت سوچ
سمجھ کر اور کم امداد دے رہے ہیں۔ یہ بے اعتباری بھی متاثرین کے لیے ایک
دھچکا ہے جس سے اُنہیں مزید ذہنی پریشانی ہو رہی ہے۔اس طرح کی صورت حال میں
لوگوں کے رویے وقتی طور پر بدل جاتے ہیں۔ اپنی ذات اور اپنے خاندان کی
اہمیت اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اِن حالات میں کوئی چیز حاصل کرنے کے لیے انسان
دوسروں کے ساتھ لڑائی جھگڑا بھی کرسکتا ہے غرض یہ کہ اُس کا غُصہ کسی بھی
سمت میں خطرناک ہو سکتا ہے۔ سیاسی قیادت سے مایوسی ۔ غیر یقینی مستقبل اور
لوگوں کی بے حسی ان سیدھے سادھے معصوم لوگوں کے صدمے اور درد کو مزید بڑھا
سکتا ہے جس کے اثرات وقتی اور دائمی ہو سکتے ہیں۔ان تمام مسائل کا حل ایک
مربوط منصوبہ بندی ہے جس میں ترجیحات کی درجہ بندی ضروری ہے۔ لوگوں تک
پہنچنا اُن کو تسلی دینا اور بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
ساری قوم کو حالات کا ادراک کرنا چاہیے کہ یہ کسی ایک صوبے یا علاقے کا
مسئلہ نہیں ہے بلکہ قومی مسئلہ ہے ۔ کون پسند کرتا ہے کہ اپنے بزرگوں،
خواتین اور بچوں کو سرراہ چھوڑ دیا جائے۔ فضائی جائزہ لے کر اور اُن کی بے
کسی کی تصاویر چھاپ کر اپنا فرض پورا کر لیا جائے۔ یہ آج قومی جذبے اور
غیرت کا مسئلہ ہے کہ ان لوگوں کو محبت اور خلوص سے بسایا جائے۔ ہم اپنے
گھروالوں کو امداد زکوة اور صدقے کے لیے راغب کریں کہ ان لوگوں تک پہنچایا
جائے ۔ جن لوگوں پر آپ اعتماد کرتے ہیں اُن تک سب کچھ پہنچا دیں۔ اگر خود
پہنچ سکتے ہوں تو لوگوں کے پاس ضرور جائیں ۔ اس وقت میڈیا انتہائی مثبت
کردار ادا کر رہا ہے۔ میڈیا کے لوگ جس دُشواری سے اس مشکل وقت میں لوگوں کے
پاس پہنچ رہے ہیں اور گھر بیٹھے لوگوں کو اصل حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔ وہ
بھی ایک قومی فریضہ ہے۔ میڈیا کو بھی ایک مربوط لائحہ عمل واضع کرنا چاہئے
اور لوگوں کو مختلف علاقوں میں سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے طریقے بتانے
چاہیں۔وہاں کے صاحب ثروت لوگوں کو سامنے لانا چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے
اپنے علاقے کے لوگوںکی ذمہ داری لیں اور اُنہیں بنیادی سہولیات فراہم کریں۔
قوم اس مشکل سے نکل آئے گی یہ ہم سب کا یقین ہے۔ اﷲ تعالٰی حوصلہ دے گا اور
ہمت بھی لیکن اس آزمائش کو ہمیں پھر ایک دفعہ ایک سبق کی طرح لینا ہوگا کہ
آئیندہ ہم نے کس طرح اپنے مُلک وقوم کے لیے ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے کہ
کوئی بھی آزمائش آئے ہم نے کس طرح اُس سے نبٹنا ہے۔ اچھا بُرا وقت تو گز ر
جاتا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ اُس کے مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے۔ |