پاکستان سمیت دنیا بھر میں آبادی کا عالمی دن
11جولائی کو منایاجاتا ہے دنیا میں ایک منٹ کے اندر تقریبا 260بچے پیدا ہو
رہے ہیں اور 132 افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں آبادی کا یہ عالمی دن پہلی بار
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے زیر اہتمام 1989 میں
منایا گیا تھا دنیا میں کل 195 ممالک ہیں جن میں سے 193 اقوام متحدہ کے رکن
ہیں جبکہ 2 غیر رکن ریاستیں ویٹیکن اور فلسطین ہیں ان ممالک میں پاکستان
دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کی آبادی 249 ملین سے
زیادہ ہے جبکہ انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم
آبادی کا بھی ملک ہے دنیا کی چھٹی سب سے بڑی مسلح افواج پاکستان کے پاس ہے
پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی ملک بھی ہے پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا
33واں بڑا ملک ہے جبکہ جنوبی ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو 881,913 مربع
کلومیٹر (340,509 مربع میل) پر پھیلا ہوا ہے پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب
اور خلیج عمان کے ساتھ 1,046 کلومیٹر (650 میل) ساحلی پٹی ہے مشرق میں
ہندوستان ،مغرب میں افغانستان، جنوب مغرب میں ایران اور شمال مشرق میں چین
سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں پاکستان شمال میں افغانستان کی واخان راہداری کے
ذریعے تاجکستان سے بھی ملا ہوا ہے اور عمان کے ساتھ ہماری سمندری سرحد ہے
پاکستان کئی قدیم ثقافتوں کا مقام ہے جس میں بلوچستان میں مہر گڑھ کا 8,500
سال پرانا نولیتھک سائٹ، کانسی کے دور کی وادی سندھ کی تہذیب اور قدیم
گندھارا تہذیب شامل ہیں وہ علاقے جو پاکستان کی جدید ریاست پر مشتمل ہیں وہ
متعدد سلطنتوں اور خاندانوں زیر اثر تھے جن میں اچمینیڈ، موریہ، کشان،
گپتا، اموی خلافت، جنوبی علاقوں میں، سما، ہندو شاہی، شاہ میرس، غزنویوں،
دہلی سلطنت، مغل سلطنت اور پھر 1858 سے 1947 تک برطانوی راج رہا اور آل
انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے 1946 میں انتخابی فتوحات کے بعد پاکستان نے 1947
میں برطانوی ہندوستانی سلطنت کی تقسیم کے بعد آزادی حاصل کرلی مگر بدقسمتی
سے 1971 میں مشرقی پاکستان نو ماہ کی خانہ جنگی کے بعد بنگلہ دیش کے نئے
ملک کے طور پر الگ ہو گیابنگلہ دیش اب ترقی کرتا ہوا پاکستان کو پیچھے چھوڑ
چکا ہے اور ہم غیر ملکی امداد کے لیے کشکول اٹھائے آئی ایم ایف کی منتیں
کررہے ہیں رہی بات آبادی کی اس میں جتنی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اتنا ہی
زیادہ قرض ہم پر چڑھ رہا ہے ہماری آنے والی نسلیں بھی قرض کی گڑتی لیکر
پیدا ہورہی ہیں وسائل کمی عدم دستیابی اور اشرافیہ کی لوٹ مار سے بڑھتی
ہوئی آبادی جہاں غربت اور جہالت میں اضافہ کررہی ہے وہیں پر جرائم میں بھی
اضافہ ہورہا یہی وجہ ہے کہ آبادی کا یہ عالمی دن آبادی کے مسائل کی فوری
ضرورت اور اہمیت پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہے جو 1989 میں اقوام
متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی اس وقت کی گورننگ کونسل نے قائم کیا تھا دسمبر
1990 کی قرارداد 45/216 کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آبادی کے
مسائل بشمول ماحولیات اور ترقی سے ان کے تعلقات کے بارے میں آگاہی بڑھانے
کے لیے عالمی یوم آبادی کو منانے کا فیصلہ کیا یہ دن پہلی بار 11 جولائی
1990 کو 90 سے زیادہ ممالک میں منایا گیا تھا اس کے بعد سے UNFPA کے متعدد
ملکی دفاتر اور دیگر تنظیمیں اور ادارے حکومتوں اور سول سوسائٹی کے اشتراک
سے عالمی یوم آبادی کی یاد مناتے ہیں اپنے اڑتیسویں اجلاس میں شماریاتی
کمیشن نے اقوام متحدہ کے شماریات ڈویژن اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے
درخواست کی کہ وہ قومی شماریاتی دفاتر کو اپنی تکنیکی مدد میں اضافہ کریں
تاکہ 2010 کے عالمی پروگرام برائے آبادی اور مکانات کی مردم شماری کے نفاذ
کے لیے قومی صلاحیت کو مضبوط کیا جا سکے اس کے علاوہ کمیشن نے ممالک سے
درخواست کی کہ وہ آبادی اور مکانات کی مردم شماری کے لیے نظر ثانی شدہ
اصولوں اور سفارشات پر عمل درآمد شروع کریں UNFPA اپنے مشن کو حاصل کرنے کے
لیے اقوام متحدہ کے نظام کے اندر اور باہر بہت سے شراکت داروں کے ساتھ کام
شروع کردیا بشمول حکومتیں، غیر سرکاری تنظیمیں، سول سوسائٹی، عقیدے پر مبنی
تنظیمیں، مذہبی رہنما اور دیگر جو مقامی طور پر بہتر طریقے سے جواب دینے کے
لیے طرز عمل اختیار کریں اوراس مقصد کے لیے UNFPA نے بھی وسائل کا رخ ان
ممالک کی طرف موڑ دیا تاکہ بہتر نتائج حاصل ہوسکیں UNFPA خاندانی منصوبہ
بندی کو سپورٹ کرنے کے لیے بھی کام کرتا ہے جن میں مانع حمل ادویات، قومی
صحت کے نظام کو مضبوط بنانا، خاندانی منصوبہ بندی کی حمایت کرنے والی
پالیسیوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک کو پروگرامی، تکنیکی اور
مالی امداد کی پیشکش کر کے خاندانی منصوبہ بندی تک رسائی بڑھانے میں مدد
بھی فراہم کرتا ہے اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی کل آبادی
آٹھ ارب سے تجاوز کرچکی ہے طاعون کی وجہ سے چھٹی اور آٹھویں صدی عیسوی کے
درمیان یورپ کی آبادی میں تقریباً 50% کی کمی واقع ہوئی 1340 میں یورپ کی
آبادی 70 ملین سے زیادہ تھی 1340 سے 1400 تک دنیا کی آبادی ایک اندازے کے
مطابق 443 ملین سے کم ہو کر 350-375 ملین رہ گئی برصغیر پاک و ہند کو سب سے
زیادہ نقصان اٹھانا پڑا اور یورپ کو بلیک ڈیتھ کی وبا کا سامنا کرنا پڑا
چین کی آبادی 1200 میں منگول حملوں، قحط اور طاعون سے 123 ملین سے کم ہو کر
1393 میں 65 ملین رہ گئی سب سے زیادہ عالمی آبادی کی شرح نمو 1.8% سے زیادہ
کے اضافے کے ساتھ 1955 اور 1975 کے درمیان ہوئی جو 1965 اور 1970 کے درمیان
2.1% تک پہنچ گئی 2015 اور 2020 کے درمیان شرح نمو 1.1 فیصد تک گر گئی اور
21ویں صدی میں اس میں مزید کمی کا امکان ہے عالمی آبادی میں اب بھی اضافہ
ہو رہا ہے لیکن زرخیزی اور شرح اموات میں تبدیلی کی وجہ سے اس کی طویل مدتی
رفتار کے بارے میں اہم غیر یقینی صورتحال ہے اقوام متحدہ کا محکمہ
اقتصادیات اور سماجی امور 2050 تک 9 اور 10 بلین لوگوں کے درمیان پروجیکٹ
کرتا ہے اور 21 ویں صدی کے آخر تک 10-12 بلین کا 80% اعتماد کا وقفہ دیتا
ہے اس وقت تک شرح نمو صفر ہو جاتی ہے دیگر آبادیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی
ہے کہ 21ویں صدی کے دوسرے نصف میں انسانی آبادی میں کمی آنا شروع ہو جائے
گی اس تمام صورتحال کے بعد ہمیں اپنے وسائل کے مطابق آبادی میں اضافہ کرنا
چاہیے نہ کہ دوسروں کی خدمت کے لیے نوکر پیداکرکے مقروض نسلیں پروان چڑھائی
جائیں اس سلسلہ میں ہمارا محکمہ بہبود آبادی بھی عام لوگوں کو شعور دے رہا
ہے ہمیں انکی بھی سننی چاہیے ۔
|