اسلام نے عورت کوجس طرح عزت دی اورجومقام دیا وہ بیچارے
مردوں نے دل سے تسلیم نہیں کیا ، ہمارے معاشرے کے مٹھی بھرنام نہاد بہادر
مردوں نے شروع سے عورتوں کوتختہ مشق بنایا ہوا ہے ،ان کا صنف نازک پرتشدد
محض وجود تک محدود نہیں بلکہ الفاظ کے نشتروں سے خواتین کی روح کو بھی زخمی
کیاجاتا ہے۔مردوں کے درمیان تصادم کے دوران ایک دوسرے کودی جانیوالی ہرقسم
کی گالی میں ماں بہن اوربیٹی کوگھسیٹا جاتا ہے جبکہ ان بیچاریوں کاکوئی
قصور نہیں ہوتا۔ماؤں کیلئے کہا جاتا ہے وہ سانجھی ہوتی ہیں توپھر ماں کی
گالی کااستعمال ایک بڑاسوالیہ نشان ہے ۔کہاجاتا ہے ہر جھگڑا زن ،زر اورزمین
کے سبب ہوتا ہے حالانکہ مردوں کے معاشرے میں تصادم کے زیادہ ترواقعات نام
نہاد چودھراہٹ کاشاخسانہ ہوتے ہیں۔
یہ جو ہمارے معاشرے کے مخصوص باعزت افراد کی دی ہوئی عزتیں ہیں جورات کو
طوائف کی صورت میں دوسرے عزت داروں کیلئے رقص کرتی ہیں۔لفظ طوائف کی تاریخ
کا تو علم نہیں لیکن کب اور کس طرح اس لفظ کو عورت کے ساتھ منسوب کردیا
گیا،بظاہر اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں محبت یا ضرورت۔اگر مخصوص
مردحضرات اپنی نجی ضروریات کیلئے ان کوٹھوں یاکوٹھیوں کاطواف نہ کریں جہاں
طوائف قیام پذیر ہوتی ہے توان بیچاریوں کادھندہ دودن نہ چلے۔گمان ہے کہ
طوائف ضرور وہ عورت ہوگی جس کی چاد یعنی اس کا محرم یا اس کو اوڑھانے والا
مرد یا تو تماش بین ہوگا یا غیرت سے عاری ہوگا۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
مرد کیلئے ایسا کوئی لفظ کیوں استعمال نہیں ہوتا؟ حالانکہ عورت تنہا تو
طوائف کا کوٹھا نہیں چلا سکتی۔کیوں غلط سمجھا جاتا ہے اس عورت کو جس کو
کوئی بے غیرت مرد محبت کے جھوٹے لارے لگا کر ایک عزت دار گھرانے سے اٹھا کر
بالا خانہ تک پہنچا دیتا ہے۔ کیا عزت کا معیار یہ ہی ہے اس معاشرے کا کہ
ناچنے والی کو طوائف زادی اور نچوانے والے کو شریف زادہ سمجھا جاتا ہے۔80
فیصد طوائفوں کی اس قسم کی کہانیاں ہے۔محبت کی خاطرماں باپ کی کوٹھی سے
نکلی اور کوٹھے کی زینت بنادی گئی،پھر وہاں یرغمال بنے ہوئے ان عزت داروں
کی بیٹیاں پیدا کرتی اور ان بیٹیوں کو اپنے بڑھاپے کا سہارابناتی ہیں۔
ماضی کی بہت سی فلمیں دیکھ کر طوائف کا جو عکس میرے ذہن میں تھا وہ چند
عورتوں سے ملنے کے بعد یکسر تبدیل ہو گیا۔ ان فلموں میں کہانی ایک طوائف کے
کوٹھے سے شروع ہو کر محبت میں گرفتارطوائف کو کوٹھے سے نکال کر جب کوئی
شریف مرد اپنے گھرلے جائے تو کہانی کے اختتام تک اس کو پھرسے اسی مقام
اورمحلے میں واپس لوٹنا پڑتا ہے کیونکہ اس معاشرے کا المیہ یہی کہ مٹھی بھر
نام نہاد شرفاء درحقیقت عزت کے مفہوم سے نابلد ہوتے ہیں۔چادر اور چار
دیواری کا جھانسہ دے کر عورت کے جذبات سے کھیلنا نوسربازوں کی نشانی ہے۔
ایک باباجی کاکہنا ہے جو زیادہ عزت اور چادروچاردیواری کی بات کریں اس کا
مقصد صرف عزت اور چادر حاصل کرنا ہے۔ باتیں بامقصد صرف آپ کے محرم کیلئے
ہیں۔عورت میں بڑی طاقت ہوتی ہے وہ کبھی ہار نہیں مانتی کبھی اپنے وجود کے
احاطے میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتی مگر المیہ یہ ہے کہ وہ محبت کے
معاملے میں بہت کمزور ہے اس کے پیچھے چھپی مکاری اورعیاری وہ نہیں سمجھ
سکتی۔ شاید اس معصومیت کے سبب حوا کی ہزاروں بیٹیاں ان ہوس کے شکاری درندوں
کے ہاتھوں اپنا سب کچھ گنواکر اپنے آپ کو بازارو عورت اوربدنام زمانہ طوائف
کہلواتی اور اس منافق معاشرے میں پل پل گھٹ گھٹ کرمرتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا
کہ ہم ایک عزت دار اور غیرتمند معاشرہ ہیں کیونکہ آج کسی تنہا،بے سہارا ،بیوہ
اور گھر سے ستائی ہوئی عورتوں کو مردوں سے کام پڑ جائے تو ان میں سے زیادہ
تر انہیں اپنی مخصوص ہوس کی آنکھوں سے د یکھیں گے اوران کے ساتھ سودا کریں
گے۔اس معاشرے میں مجبور ہونا سب سے بڑی مجبوری اورکمزوری ہے اور اگرمجبوری
کسی عورت کی ہو توکوٹھے پر جانے کی کیا ضرورت ہے وہیں اس بیچاری کی مجبوری
کی قیمت لگا دی جاتی ہے۔
مرد ہردوسری عورت میں طوائف ڈھونڈتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتا ہے
کہ میری بیٹی بہن اور ماں کی عزت محفوظ رہے۔ وہ شاید بھول جاتا ہے کہ اس کی
بیٹی بہن اور ماں بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ آج تمہاری وجہ سے اگر کوئی
عورت جسم فروشی پر مجبور ہے تو خدانخواستہ میرے منہ میں خاک کسی روز یہ
مجبوری تمہاری بیٹی کو بھی اس کو ٹھی خانہ تک پہنچا سکتی ہے جس کی مثال نام
نہاد شرفاء کے محلات میں عبرت کے طور پر دی جاتی ہیں۔اس معاشرے کا دوہرا
معیار مجھے آج تک سمجھ ہی نہیں آیا،مرد سمجھتا ہے کہ طوائف کی چھت کے نیچے
اس کانام ونشان اوراس شان وشوکت کوئی نہیں جاتا لہٰذاء مردرات کو وہاں کسی
کی محبوس و مجبور بیٹی کے پاؤں چاٹ کر صبح سفید شلوارکرتا زیب تن کرکے
معاشرے میں عزت دا رخاندان کا چشم چراغ کہلاتا ہے اور عورت ہزار نقابوں میں
بھی باہر نکلے تو اس کو چھیڑنے والے ماتھے پر مرہا ب بنے داڑھی والے مولوی
نمامرد زیادہ ہوتے ہیں۔عورت ناقص العقل ہے شاید اسلئے دین کے ٹھیکیدار عورت
کو گھٹیا القابات سے نواز تے لیکن اپنے دل کی حسر تیں دوسروں سے چھپا تے
ہوئے تاریک راتوں میں طوائف تک رسائی کیلئے ان کوٹھوں کاطواف کرتے ہیں۔ ا
نہیں لگتا ہے نعوذباﷲ شاید وہاں رات کو اﷲ تعالیٰ بھی موجود نہیں ہوتایہ
نادان بندوں سے تو ڈرتے ہیں لیکن انہیں اپنے ربّ سے ڈر نہیں لگتا۔ |