چین میں اس وقت کم کاربن ترقیاتی فلسفہ عروج پر ہے۔کارخانوں سے لے کر دیہی علاقوں تک اور صنعتی پیداوار سے لے کر روزمرہ کی زندگی تک، معاشرے میں کم کاربن طرز زندگی بہترین انتخاب بن رہا ہے۔ کاربن اخراج میں کمی کے حکومتی اقدامات کو شہریوں کی جانب سے قبول کیا جا رہا ہے اور جدیدیت کی جانب سفر میں کم کاربن ترقی نمایاں خصوصیت بن چکی ہے۔دیہی علاقوں کے باسیوں نے اپنی چھتوں کو شمسی پینل سے ڈھانپ لیا ہے،نئی توانائی والی گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز تعمیر کیے جا رہے ہیں اور دیہی سڑکوں پر سولر اسٹریٹ لیمپ نصب کیے گئے ہیں۔ سبز بجلی دیہی کمیونٹیز کو "زیرو کاربن" گاؤں میں تبدیل کر رہی ہے۔اسی طرح مختلف علاقوں میں نئے اپ گریڈ شدہ اسمارٹ ماحولیاتی پلیٹ فارمز زیادہ سے زیادہ کاروباری اداروں کو توانائی کی کھپت کے حوالے سے مربوط کر رہے ہیں ، جس سے توانائی کے زیادہ موثر استعمال اور کاربن اخراج میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ رواں سال کے آغاز سے اب تک چین بھر میں کاربن میں کمی سے متعلق کئی بڑے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں جن میں پہلا آف شور کاربن کیپچر اور اسٹوریج کا مثالی منصوبہ بھی شامل ہے، جو ایشیامیں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔اسی طرح طویل ترین کاربن ڈائی آکسائیڈ ٹرانسپورٹیشن پائپ لائن کی تعمیر بھی قابل زکر منصوبہ ہے۔ ان سب اقدامات کے پیچھے محرک قوت ، چین کی جانب سے 2030 سے پہلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی کو عروج پر لانا اور 2060 سے پہلے کاربن نیوٹرل حاصل کرنے کے لئے پرعزم اہداف مقرر کرنا ہے۔ان دوہرے کاربن اہداف کا اعلان چینی صدر شی جن پھنگ نے ستمبر 2020 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کے عام مباحثے کے دوران کیا تھا۔ماہرین کے نزدیک چین کے دوہرے کاربن اہداف کا تعلق محض آب و ہوا سے نہیں ہے، بلکہ یہ پائیدار معاشی اور سماجی ترقی سے قریبی جڑے ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ قیادت کے وژن کی روشنی میں دوہرے کاربن اہداف کو ماحولیاتی تہذیب کی مجموعی ترتیب میں شامل کیا گیا ہے اور چین کے ترقیاتی موڈ، صنعتی ڈھانچے، توانائی کے ڈھانچے اور سماجی تصورات سمیت تمام محاذوں پر گہری نظامی تبدیلیوں کو فروغ دیا گیا ہے۔اس حوالے سے چین نے غیر فوسل انرجی پاور جنریشن کی اپنی تنصیب شدہ صلاحیت کے ساتھ ایک اہم سنگ میل حاصل کیا ہے جو اب ملک کی کل صلاحیت کا 50.9 فیصد ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران، چین اُن ممالک میں سے ایک بن گیا ہے جنہوں نے توانائی کی شدت میں سب سے تیزی سے کمی دیکھی ہے. اس کی ایک مثال ذرائع نقل و حمل بھی ہیں ، ملک میں اس وقت نئی توانائی گاڑیوں کی کل پیداوار 20 ملین سے بڑھ چکی ہے جو نقل و حمل میں سبز تبدیلی کی رفتار کو تیز کر رہی ہے۔ چین اپنی سبز صنعتی ترقی کو بھی تیز کر رہا ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران بڑے صنعتی اداروں میں مجموعی ویلیو ایڈڈ کے فی یونٹ توانائی کے استعمال میں 36 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے اور چین نے قومی سطح پر 3616 گرین فیکٹریاں، 267 گرین انڈسٹریل پارکس اور 403 گرین سپلائی چین مینجمنٹ انٹرپرائزز بنائے ہیں۔ چینی شہریوں میں بھی گرین تصور کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں اور سرسبز طرز زندگی کو وسیع پیمانے پر اپنایا گیا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ گھریلو توانائی کی کھپت کو کنٹرول کرنے سے لے کر ڈسپوزایبل مصنوعات کے استعمال کو کم کرنے اور عوامی نقل و حمل کی خدمات کا استعمال کرنے تک فعال طور پر سبز طرز زندگی پر عمل پیرا ہیں۔عام روزمرہ زندگی میں، بہت سی موبائل ایپس موجود ہیں جو شہریوں کے پیدل چلنے کے قدموں اور "کلین پلیٹ" مہمات میں اُن کی شرکت کا ڈیٹا مرتب کرتے ہوئے کاربن فٹ پرنٹ ریکارڈ کرسکتی ہیں،یہ ٹیکنالوجیز شہریوں کو کاربن اخراج کو کم کرنے اور معاشرے میں سبزپن شامل کرنے کی یاد دلاتی ہیں۔خلاصہ یہی ہے کہ چینی سماج کے نزدیک ہمیں ماحول کی حفاظت اور توانائی کی بچت کرنے کی ضرورت ہے ،اسی سوچ کے ثمرات ہیں کہ حکومت اور عوام کی مشترکہ کوششوں سے ماحولیات کا معیار روز بروزبہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے، اور خوشی کا احساس اور بھی مضبوط ہو رہا ہے ۔
|