معروف عرب مفکّر شیخ علی طنطاوی رحمــتـهُ اللّٰه لکھتے ہیں
ایک دن میں ٹیکسی میں ایئر پورٹ جا رہا تھا. ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ
اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڈ پر چڑھا. قریب تھا
کہ اس کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی
اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گئے. ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلافِ توقّع وہ گاڑی
والا اُلٹا ہم پر چیخنے چلّانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا. ٹیکسی
ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کر لی اور مسکرا کر چل دیا
مجھے
ٹیکسی ڈرائیور کے اِس عمل پر حیرت ہوئی. میں نے اس سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور
غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر تم نے اس سے معافی کیوں
مانگی؟
ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا. وہ کہنے لگا کہ کچھ
لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں، وہ گندگی اور کچرے سے لدے گھوم رہے ہوتے
ہیں؛ وہ غصہ، مایوسی، ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں؛
انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے، وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،
جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لهٰذا ہم ان کے لئے ڈسٹ
بِن اور کچرا دان کیوں بنیں؟
اس قسم کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکراکر گزر جائیں اور اللّٰه تعالیٰ سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں. بے شک ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی کسی کو دینا چاہے تو وہی دے سکتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے تو دوسروں کو عزت صرف وہی دیتے ہیں جن کے اپنے
|