دنیا کو دیکھنے کا انداز بدلیں
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
نزدیک اور دور کی عینک کا نمبر جتنی جلد تبدیل ہو اتنا ہمارے حق میں بہتر ہے۔ نزدیک کی نظر بہتر ہو تو اپنے ارد گرد واقع قریبی اشیاء کو اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں ایسے انسان بھی شامل ہیں جن کی حالتِ زار کو ہم اکثر نہ سمجھنے کی باعث نظر انداز کر جاتے ہیں جب کہ وہ ہماری توجہ کے شدید مستحق ہوتے ہیں۔لیکن اس میں تمام قصور ہمارا نہیں ہوتا بلکہ ان قریبی لوگوں کا صبر و برداشت ان کی پریشانی کے اظہار کے آڑے آ جاتا ہے یا پھر یہ قریبی ان فاصلہ والوں کے شور شرابے کی زد میں دب جاتے ہیں جو بلا وجہ اپنی جانب متوجہ کرکے ہماری ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ بہر حال کسی بھی مسئلہ کا حل یہ نہیں ہؤا کرتا کہ ہم سارا نظام ہی بدل دیں بلکہ اس کے لئے ہمیں اپنا آپ بدلنا ہوتا ہے۔ موجودہ بیان کردہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم دنیا کو دیکھنے کا انداز بدلیں جس میں قریبی اشیاء ہمیں شفاف نظر آئیں اور دور والی بھی بشمول انسانوں کے۔جب ہمارا دیکھنے کا انداز بدلے گا تو ایک دن ضرور آئیگا کہ ہمارا سوچنے کا انداز بھی بدل جائے جو کہ مثبت کی جانب ہو تو بہتر ہے ورنہ منفی کی جانب تو دنیا ساری ہی جارہی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ منفی سوچ کی وجہ سے ہم انجانے میں اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ یقین جانئے کسی ذیادتی پر زیادتی کرنے والے کو معاف تو کر کے دیکھیں، بہت لطف آئیگا زندگی کا۔جب ک اس کے برعکس اس کے غصہ میں کڑھ کڑھ کر اپنا خون جلا کر آپ کو اندازہ ہوگا کچھ عرصے بعد کہ آپ نے اپنی صحت کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ عفو و درگذر کے علاوہ برداشت کے نتائج تو نہایت شاندار ہوتے ہیں دراصل کسی کو معاف کردینا تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اندر برداشت ہو۔ خالقِ کائنات کا ابلیس کی نافرمانی پر اس کو نظر انداز کرنا بھی ایک برداشت کی صورت ہے لیکن اس کی معافی ہوتی ہے یا نہیں یہ خالقِ کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔ ویسے بھی ابلیس نے روزِ اول سے اس زمین پر جو کہرام مچایا ہؤا ہے، اس کے شر سے اپنے آپ کو بچانا ہماری اپنی ذمہ داری ہے جس کا پھل بھی ہم ہی کھائیں گے یعنی ابلیس کی منفی سیاست کو چھوڑ کر ہم مثبت اندازِ فکر اپنائیں گے تو نہ صرف ہمارے گھر کا ماحول اچھا ہوگا بلکہ پورا معاشرہ ہی بہتر ہوتا چلا جائیگا۔
ذرا غور کریں کہ قادرِ مطلق کو بڑھاپے میں ہماری نظر کمزور کیوں کرنی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے تاکہ ہمیں اپنے بچپن کے ساتھیوں کے چہرے پر جھریاں نظر نہ آئیں اور ہم ان کو اپنے سے زیادہ ضعیف نہ سمجھیں۔ جوانی کے دور کی بیوی ہو یا محبوبہ، دونوں ہی ہمیں جوان ہی نظر ائیں۔
|