فیس بک پر کئی جگہ ایک پوسٹ نظر سے گذری جس میں ایک عظیم
الشان مذہبی لائبریری کا فوٹو دے کر استہزائیہ انداز میں کہا گیا کہ یہ سب
کتابیں اس قرآن کو سمجھنے کے لیے لکھی گئی ہیں جس کے بارہ میں دعویٰ ہے کہ
اسے سمجھنا آسان ہے۔
جوابا لکھا ہے کہ قرآن کی بنیادی دعوت چند روحانی واخلاقی تعلیمات پر مشتمل
ہے، اس دعوت کا سمجھنا آسان تھا، آسان ہے اور آسان رہے گا۔ بلکہ اگر کوئی
چاہے تو لائبریریوں کا منہ تک دیکھے بغیر اس دعوت کا صحیح فہم حاصل کرکے
اور خود کو اس کے مطابق ڈھال کے اللہ کا محبوب ولی اور بعض بڑے بڑے علماء
کے لیے قابل رشک بن سکتا ہے اور احادیث کو ماننے والے بعض بڑے بڑے روایتی
علماء اس رخ پر دین کی خدمت کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ احمد بن
حنبل سے کسی نے کہا کہ سری سقطی کے پاس مروجہ مذہبی علم نہیں ہے، انہوں نے
فرمایا کہ بھلے نہ ہو، مگر علم کا مقصود یعنی بنیادی قرآنی دعوت کا فہم اور
اس کے مطابق اعمال واخلاق کی درستگی اسے حاصل ہے۔
لائبریری میں دکھائی گئی کتابوں میں سے بعض کتابیں عربی لغت وادب سے متعلق
ہیں، بعض ان شکوک وشبہات کا خاتمہ کرنے کے لیے ہیں کہ قرآن محفوظ نہیں، بعض
یہ بتاتی ہیں کہ صرف قرآن ہی نہیں، احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ بھی محفوظ ہے،
بعض میں قرآنی اسرار و رموز کے متعلق مختلف علماء کے دروس مذکور ہیں۔ بعض
کتابوں میں احمد بن حنبل اور سری سقطی جیسے لوگوں کی سیرت و سوانح ہے، بعض
کا تعلق اسلامی تاریخ سے ہے اور بعض کا تعلق اس عدالتی فقہ سے ہے جو لوگوں
کے نت نئے جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کے لیے اسلام ہی کی روشنی میں وضع ہوئی اور
جس کے بارہ میں خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اپنی بد
عملیوں کی وجہ سے ہی اس میں وسعت در وسعت آئے گی، خلاصہ یہ کہ قرآن کا
بنیادی پیغام آسان ہے اور اسی کے مطابق خود کو ڈھالنے کا اصل مطالبہ ہے،
مگر اس کے لیے ضروری نہیں کہ آپ علماء کی علمی سرگرمیوں کا مذاق بھی اڑائیں
جیساکہ سری سقطی نے ان سرگرمیوں کا مذاق شاید نہیں اڑایا تھا۔ قرآن ان
کتابوں کا محتاج نہیں، لیکن یہ کتابیں ایک درجہ میں قرآن کی خادم کہلاسکتی
ہیں۔ اگر قرآن آسان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ علماء کچھ بھی لکھنا بولنا چھوڑ
دیں تو مسٹر غلام احمد پرویز نے ساری زندگی کتابیں لکھ لکھ کر دین کی کون
سی خدمت انجام دی ہے۔
|