جون 2023کے سیاحتی دورے میں،میں نے ایشیا کے تیز ترین
ترقی کرنے والے ملک ملائیشیا کے رنگ ڈھنگ اپنی آنکھوں سے دیکھے تو دنگ رہ
گیا۔یہ چند دہائیوں قبل والا غربت میں لپٹا ملائیشیا نہیں تھا بلکہ اپنی
شان و شوکت سے یورپ کی آنکھیں خیرہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو چکا ہے ۔
ملائشیا وطن عزیز پاکستان سے دس برس بعد31 اگست 1957 کو انگریزوں کے پنجہ
استبداد سے آزاد ہواتھا۔1511 سے یہ جزیرہ پہلے پرتگیز، پھر ڈچ اور آخر میں
انگریزوں کی کالونی بنا رہا۔ 1957 میں آزادی ملتے ہی خوش قسمتی سے اس کو
ایسی دُور اندیش اور مخلص قیادت ملی جس نے پچاس ساٹھ برسوں میں دنیا کے
ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بہ شانہ پہنچنے تک کا سفر انتہائی سرعت سے طے کیا
اور آج دنیا بھر کے سیاح کوالالمپور، پترا جائیا اور گنٹنگ جا کر اس کی
ترقی اور حسن دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔ کوالالمپور میں جیسے
آسمان کے چھونے والی بلند ترین عمارتوں کا جا ل بچھاہے۔ شہر میں جدھر نظر
دوڑاؤ کوئی نہ کوئی عظیم الشان عمارت نظارہ خلق بنی دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی
کئی عمارتیں دُنیا کی بلند ترین عمارات کی فہرست میں شامل ہیں ۔کوالالمپور
کا 452 میٹر بلند پیٹرن ٹاور اس وقت دنیا کی بلند ترین جڑواں عمارت ہے ۔اسی
طرح دلکش اورصحت افزا شہر گنٹنگ میں واقع 7351 کمروں پر مشتمل ہوٹل دُنیا
کا سب سے بڑاہوٹل ہے ۔ متذکرہ دورے میں دو شعرا عاطر عثمانی اور محمد بوٹا
انجم کی معیت میں گنٹنگ کا سفر بھی یادگار رہا۔شعرا کا ذکر ہوا تو پروفیسر
ممتاز علی اور ادبی تنظیم رنگِ ریختہ کا ذکر لازمی ہے جو ملائیشیا میں اردو
شعر وادب کا علم بلند کیے ہیں۔ میرے اعزاز میں ان کی تقریب اور مشاعرہ
نہایت شاندار تھا۔
کوالالمپور جیسے گہما گہمی والے شہر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع جدید
پتراجائیا شہر دیکھ کر فرحت و شادمانی کا احسا س ہوا ۔ دارالحکومت بنانے کی
غرض سے خصوصی طور پر بسایا گیا یہ شہر جدید اور دلکش ہونے کے باوجود کسی
بڑے دیہی گاؤں کی طرح پر سکون اور قدرتی رنگوں سے مزیّن ہے ۔ رنگ برنگے
اشجار اور سبزے کی بہتات ہے ۔ ہر قطعہ ارض پر رنگین پھولوں نے جیسے رنگین
چادریں بچھا رکھی ہیں ۔ عمارتیں جدید اور مختلف دلکش ڈیزائن سے بنی ہیں۔
قطر اور امارات کی طرح یک رنگ نہیں بلکہ مختلف رنگوں پر مشتمل اور نظروں کو
بھاتی ہیں ۔ پترا جائیا کی بہت سی عمارتیں قابل دید اور قابلِ ذکر ہیں ۔ ان
میں پترا جائیا مسجد سرِ فہرست ہے ۔ یہ مسجد جیسے اس شہر کے ماتھے پر سجا
جھومر ہے ۔ اس مسجد کی اندرونی اور بیرونی ساخت،جسامت اور سجاوٹ ایسی ہے کہ
انسان دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ اس کا بلند مینار آسمان کو چھوتا محسوس ہوتا ہے
۔ اسی طرح اس کے اندر کھڑے ہوں تو اس کی گول چھت اتنی بلند ہے کہ سر پیچھے
کی طرف ڈھلک جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اوپر ایک عظیم الشان اور
ضخیم گول گنبد ہے جس کے اندر پتھروں پر کندہ رنگا رنگ نقش و نگار صناعی اور
بناوٹ و سجاوٹ کا نادر نمونہ ہیں ۔ اس مسجد کے عقب میں ایک وسیع و عریض
جھیل اس شہر کے حسن کو چار چاند لگاتی ہے ۔ملائیشین کی فطرت نوازی کی غماز
یہ مصنوعی جھیل انسانی ہاتھوں کی مظہرہے ۔ یہ شہر کے حسن کو دوبالا کرنے کی
غرض سے تخلیق کی گئی ہے ۔تیزی سے ترقی کے زینے طے کرنے والے اس ملک کی
معیشت کی پٹری کو درست سمت میں ڈالنے والوں میں اسلامی دُنیا کے عظیم
مدبرمہاتیر محمد کا ہاتھ سب سے نمایاں ہے ۔ اگرچہ وہ حالیہ انتخابات میں
کامیاب نہیں ہوئے لیکن مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ
ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنانے میں مہاتیر محمد کا سب سے بڑا کردار ہے ۔
موجودہ وزیر اعظم انور ابراہیم بھی خاصا مقبول ہے ۔بین الاقوامی سیاحوں میں
انتہائی مقبول اس ملک کی چند مزید باتیں اہم اور قابل غور ہیں بلکہ ان کی
کامیابی کی کلید ہیں ۔اگرچہ یہاں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیب و تمدن کے
حامل افراد بستے ہیں مگر ان میں برداشت، رواداری ، تحمل اور حب الوطنی کا
جذبہ غالب ہے ۔ آبادی کو تین بڑے طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں
چینی نژاد ملائیشن، ہندوستانی نژاد ملائیشین اور مقامی النسل ملائیشین شامل
ہیں۔تینوں طبقات کی گھریلو زبان اور مذاہب الگ ہیں ۔ ہندوستان سے تعلق
رکھنے والے تامل نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر ہندو ہیں ۔ چین سے
تعلق رکھنے والے چینی بولتے ہیں اور بدھ مذہب کے پیروکار ہیں ۔جبکہ مقامی
ملائیشین تعداد میں زیادہ ہیں جو مسلمان ہیں انھی کی وجہ سے یہ مسلم ملک ہے
۔ چینی اور تامل بولنے والے اس حقیقت سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ انھوں نے اسے
دل سے تسلیم کیا ہے ۔ لہذا تینوں گروہوں میں کوئی اختلاف یا جھگڑا نہیں
ہے۔سب فخریہ ملائیشین ہیں۔ آپس میں ملائیشین زبان میں بات کرتے ہیں۔
انگریزی سمجھنے اور بولنے والے بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے سیاحوں کو
آسانی ہے ۔ ویسے بھی ملائیشین دھیمے لہجے والے اور دوستانہ مزاج والے سیدھے
سادے لوگ ہیں ۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے ملائیشیا کے پڑوسی ممالک
سے بہترین تعلقات ہیں۔ متعدد رُکاوٹوں کے باجود ملائیشیا نے 2022 میں 8.7
فیصد کی سالانہ ترقی کی شرح سے ساؤتھ ایشین ممالک میں تیز ترین ترقی کا
ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ان کی لیبر مارکیٹ کی حالت میں سدھار آیا ہے غربت میں
تیزی سے کمی آئی ہے اور مارکیٹ میں کھلے پن اور مسابقت کا رُحجان بڑھا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی ملائیشیا کی جانب متوجہ ہوا ہے ۔آج
وہاں بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں کام کر رہیں ہیں ۔ ہالی وڈ کی فلمیں بن
رہی ہیں اور ان کی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طالب علم ، تحصیل علم کر
رہے ہیں ۔
ان سب کامیابیوں کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ سب سے اہم ضرورت
سیاسی اور حکومتی پالیسیوں کے تسلسل کی ہے جسے حال ہی میں سیاسی دھینگا
مشتی سے ضرر پہنچا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اور نیم ترقی یافتہ ممالک میں یہ
فرق ہمیشہ نمایاں رہتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی مکمل پاس داری
ہوتی ہے اور غریب اور کمزور کی کفالت حکومتی سطح پر اس طرح سے ہوتی ہے کہ
امیر و غریب کے طرزِ حیات میں فرق محسوس نہیں ہوتا بلکہ زندگی کی بنیادی
سہولتوں سے وہ یکساں طور مستفید ہوتے ہیں جیسے صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ ،صاف
پانی اور تحفظ عامہ کے معاملے میں امیر اور غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں
ہوتا ۔ بس اتنا فرق ہو سکتا ہے کہ امیر کے پاس مہنگی گاڑی ہو اور غریب کے
پاس کسی قدر سستی ۔یہ سستی گاڑی بھی بہت پرانی ، دُھواں پھینکنے والی یا
ایک خاص معیار سے کم نہیں ہوگی کیونکہ ایسی گاڑی حفاظتی ٹسٹ پاس نہیں کر
سکتی ۔ کوالالمپور میں بلند و بالا عمارتوں کے ساتھ ساتھ تنگ گلیوں والے
چھوٹے چھوٹے تنگ و تاریک مکانات اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ ابھی بھی
غربت اس دیس سے گئی نہیں ہے بلکہ امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھی ہے ۔یہ
خلیج پاٹنے کی ضرورت ہے۔ انصاف کے ذریعے، تقسیم ِ زر کے ذریعے، مساوات کے
ذریعے اور قانون کی مکمل عمل داری کے ذریعے ۔ اگر ان کی قیادت اسی طرح بالغ
نظر اور مخلص رہی تومجھے اُمید ہے کہ جنوبی ایشیا کا ٹائیگریہ منزل بھی جلد
ہی حاصل کر لے گا۔
|