حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ ( حصہ چہارم آخری حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
میں نے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ تعالی علیہ کی زندگی اور ان کے معمولات پر جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کے تین حصے اپ تک پہنچ چکے ہیں اب تک کے تمام حصوں میں آپ علیہ الرحمہ کی زندگی اور ان سے ملنے والے فیوض و برکات کا ذکر کرنے کی میں نے مختصر طور پر کوشش کی یے آج اس سلسلے کا اخری حصہ یعنی حصہ چہارم پیش خدمت ہے آج کے حصے میں ہم یہ پڑھیں گے کہ آپ علیہ الرحمہ کو جو مقام و مرتبہ ملا وہ کیسے ملا آپ علیہ الرحمہ کے وہ کونسے عوامل تھے یا عمل تھا جو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اور اس کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے حضور اتنا مقبول ہوا کہ آپ علیہ الرحمہ کو اتنا بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہوگیا ۔
میرے واخب الاحترام پڑھنے والوں قصہ کچھ یوں ہے کہ بغداد شہر میں ایک نوجوان پہلوان تھا جس کا نام جنید تھا پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہیں تھا بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیرو تھا کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے سامنے کھڑا ہوسکے ان سے نظر ملا سکے یا ان کو مقابلے کا چیلنج دے سکے وہ ایک مخلص دیندار اور پکے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم بھی تھے اس لئے شاہی دربار میں بھی ان کو بڑا مقام حاصل تھا اور بڑی عزت و احترام کی نگاہ سے انہیں دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ وقت کی نظر میں بھی ان کا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دن جنید پہلوان شاہی دربار میں اراکین سلطنت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے دربار میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی بادشاہ نے خدام سے کہا دیکھو کون ہے گویا خدام نے عرض کیا کہ اے بادساہ سلامت ایک کمزور و ناتواں شخص کھڑا ہے بوسیدہ سا لباس ہے اور کمزوری کا یہ عالم یے کہ صحیح طرح سے وہ کھڑا بھی نہیں ہوپارہا اور اس نے ایک پیغام دیا ہے جو جنید پہلوان کے لئے ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں خدام عرض کرنے لگا کہ وہ کہتا ہے کہ میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں ان سے کہو کہ میرا چیلنج قبول کرے اس کا پیغام سن کر بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں حاضر کیا جائے اور وہ اجنبی کمزور شخص جب ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں داخل ہوا تو سب کی نظریں اس کی طرف تھی اسے دیکھکر وزیر نے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ تو اس نے کہا کہ میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں تو وزیر نے کہا کہ تم نے اپنے آپ کو دیکھا ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وزیر نے مزید کہا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ جنید پہلوان کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوان کانپ اٹھتے ہیں اور انہیں پسینہ آجاتا ہے پورے شہر میں ان کے مقابلے کا کوئی پہلوان نہیں تمہارا اس سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی بن سکتا ہے وزیر کی یہ باتیں سن کر اس شخص نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے یہاں کھینچ لائی ہے اور میں اس مقابلے سے یہ ثابت کرکے دکھائوں گا کہ جنید پہلوان کو شکست دینا ممکن ہے میں اپنے انجام سے بھی باخبر ہوں اب جیت کس کا مقدر بنتی ہے یہ وقت بتائے گا آپ صرف میرا چیلنج قبول کرتے ہوئے مقابلے کا اعلان کریں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں چونکہ جنید پہلوان خود بھی وہاں موجود تھے اور اس کمزور و ناتواں اجنبی شخص کی باتوں کو بڑی حیرت سے سن رہے تھے بادشاہ وقت نے کہا کہ جب یہ سمجھانے کے باوجود بضد ہے تو پھر اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہوگا لہذہ اس کا چیلنج قبول کرلیا جائے وقت اور تاریخ کا اعلان بھی ابھی کیئے دیتے ہیں اور پورے بغداد میں اس مقابلے کا اعلان کروادیا جائے پورے بغداد شہر میں اس مقابلے کی خبر سے ایک تہلکہ مچ گیا اور اس مقابلے کے انعقاد کا لوگ بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یر شخص کی یہ خواہش تھی کہ وہ یہ مقابلہ اپنی آنکھوں سے دیکھے جوں جوں وقت قریب آتا گیا لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا لوگوں کو اصل میں تجسس یہ تھا کہ انہوں نے آج تک کسی تنکے کا پہاڑ سے مقابلہ نہیں دیکھا تھا دور دراز کے ملکوں اور علاقوں سے سیاح بھی اس مقابلے کو دیکھنے کی غرض سے آنا شروع ہوگئے جنید پہلوان کے لئے یہ مقابلہ بڑا پراسرار تھا جس کی وجہ سے ان پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی تھی وہ سوچ رہے تھے کہ میرے نام سے بڑے بڑے پہلوان کانپتے ہیں جبکہ یہ ایک کمزور اور ناتواں شخص مجھ سے لڑنے کو کیوں کر تیار ہوا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی اس لئے انسانوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر شہر بغداد میں امڈ آیا تھا لوگوں کے لئے اس مقابلے کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک وقت کا مانا ہوا اور معروف پہلوان ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے پر میدان میں اتر رہا ہے اکھاڑے کے چاروں طرف صرف لوگ ہی لوگ تھے جو اس دلچسپ و عجیب مقابلہ کو دیکھنے کے لئے یہاں جمع ہوئے تھے بادشاہ وقت بھی اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر تشریف فرما ہوچکے تھے۔


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ موجود تھے سب کی نظریں اس پراسرار کمزور اور ناتواں شخص پر جمی ہوئی تھیں جس نے وقت کے نامور پہلوان کو کشتی کا چیلنج دے کر ایک تہلکہ مچادیا تھا جنید پہلوان پہنچ چکے تھے لیکن اب لوگوں کو اس اجنبی شخص کا بے چینی سے انتظار تھا لوگوں کے اس جم غفیر کو یہ خدشہ تھا کہ وہ اجنبی شخص مقابلے کے لئے نہیں آئے گا جنید پہلوان جب اکھاڑے میں اترے تو لوگوں نے بھرپور نعروں سے ان کا استقبال کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا اسی لمحہ لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا وہ کمزور سا اجنبی شخص اکھاڑے میں داخل ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھکر ہر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ جو شخص جنید جیسے پہلوان کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس کا اتنے منجھے ہوئے پہلوان سے لڑنا دانشمندی نہیں لیکن پھر بھی یہ مجمع اس مقابلے کو دیکھنے کی غرض سے یہاں جمع تھا اور بلآخر مقابلہ شروع ہوگیا دونوں پہلوان آمنے سامنے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی دائو لگاکر اس اجنبی شخص کو زیر کرتے اس نے آہستہ سے جنید سے کہا کہ اپنا کان ادھر لائو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں تو جنید قریب ہوئے اور کہا کہ بتائو کیا کہنا چاہتے ہو؟


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ اجنبی بولا اے جنید میں کوئی پہلوان نہیں ہوں زمانے کا ستایا ہوا ہوں میں آل رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہوں سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ ہے ہفتوں سے فاقوں میں ہے اور جنگل میں پڑا ہوا ہے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہوچکے ہیں خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی سید زادیوں کے جسم پر پہنے ہوئے کپڑے بھی پھٹے ہوئے ہیں بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں میں نے اس امید پر تمہیں چیلنج کیا تھا کہ تم ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہو اور تمہیں ان کے گھرانے سے عقیدت بھی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ اجنبی شخص مزید کہنے لگا کہ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھوائوں گا تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی اور تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضایع نہیں ہوگی نہ ہونے دی جائے گی۔


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے دل میں اتر گئے ان کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہوگئیں سید زادے کی اس پیش کش کو اسی وقت قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت ، عزت اور عظمت کو آل رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کیا اور سوچنے لگے کہ اس سے بڑھکر میری عزت اور ناموس کا موقع اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے خون کا ایک قطرہ بھی کام آسکتا ہے تو میرے جسم میں موجود ہر قطرہ میں اس خاندان کی خوشحالی کے لئے دینے کو تیار ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب جنید فیصلہ کرچکے تھے وہ اس اجنبی شخص سے ظاہری پنجہ آزمائی کا مظاہرہ کرنے لگے مقابلہ جاری تھا جنید نے ایک دائو لگایا تو مجمع میں ایک شور پرپا ہوگیا اور لوگ اس کے حق میں نعرے لگانے لگے ایک عجب جوش و خروش تھا دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے اور دائو لگانے لگے یکایک مجمع میں ایک خاموشی چھا گئی اور لوگوں کے سامنے ایک ناقابل یقین منظر تھا اس اجنبی شخص نے ایک ایسا دائو لگایا کہ جنید چاروں شانے چت زمین پر لیٹ گیئے اور خاندان نبوت کا شہزادہ اس سینے پر بیٹھکر فتح کا جھنڈا بلند کررہا تھا پورے مجمع میں ایک ناقابل یقین منظر کی وجہ سے سکتہ طاری تھا۔


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب سکوت کا یہ طلسم ٹوٹا اور لوگوں کو جنید کی شکست کا یقین ہوگیا تو لوگوں نے سیدزادے کو گود میں اٹھالیا اور اس کے حق میں نعرے بازی شروع کردی ہر طرف سے اس کے اوپر انعامات کی بارش ہونے لگی اور بادشاہ وقت بھی حیرت اور خوشی کے ملے جلے جزبات کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے جبکہ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا انعام و کرام لیکر خوش و خرم اپنے چھوٹے سے گھرانے کی طرف روانہ ہوگیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شکست کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے جنید کا وقار ، عزت اور احترام ختم ہوگیا ہر کوئی انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہوا گزر رہا تھا زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والا آج ان کے طعنے سن رہا تھا اب ایک شکستہ دل کے ساتھ جنید پہلوان بھی گھر کی طرف روانہ ہوگئے رات کا وقت ہوچکا تھا لوگ اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے عشاء کی نماز پڑھکر جنید بھی اپنے بستر پر سونے کی نیت سے لیٹے تو ان کے دماغ میں اس سیدزادے کے الفاظ بار بار گونج رہے تھے کہ " اج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھوائوں گا " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنید سوچتے رہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ میں مجھے یہ شرف حاصل ہو کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ہاتھوں سر پر تاج پہنوں گا نہیں نہیں میں اس قابل نہیں لیکن اس اجنبی سیدزادے نے مجھ سے وعدہ جو کیا ہے اور آل رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا وعدہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا بس یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکے تھے نیند کی گہرائی میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے۔


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بہت حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور یکایک گنبد خضراء آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوگیا جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی جن کے حسن سے جنید کی آنکھیں خیرا ہوگئیں دل کیف وسرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے اوازیں آنے لگی الصلوۃ و السلام علیک یارسول اللہ جنید کو سمجھ میں آگیا کہ یہ تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنید اسی وقت قدموں میں گرگئے تو حضور صلی اللہ علیی وآلیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نطارہ کرلو نبی زادوں کی ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض نہیں رکھا جا سکتا سر اٹھائو میں تمہارے لئے فتح اور کرامت کی دستار لیکر آیا ہوں آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے اب تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگا لیا اس موقع ہر سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے حالت خواب میں کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لیکن اس سے ایک بات کا اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے ائینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آگئی تھی ہر کسی کا دل جنید کے قدموں پر نثار ہورہا تھا یہاں تک کہ بادشاہ وقت نے اپنے سر سے قیمتی تاج اتار کر جنید کے قدموں میں رکھ دیا تھا بغداد کا یہ پہلوان آج سے سید الطائفہ شیخ حضرت جنید بغدادی (علیہ الرحمہ ) کے نام سے پورے عالم میں مشہور ہوچکا تھا اور پوری کائنات ان کے قدموں پر نچھاور ہوچکی تھی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ نے یہ کہاوت سنی ہوگی کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر یہ کہاوت دنیاوی اعتبار سے کسی مقام کے حصول یا کسی معاملے میں کامیابی کے حصول کے لئے استعمال ہوتی ہے جبکہ یہاں ختم نبوت ، محبت اہل بیت اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے عیوض اپنی دنیاوی شہرت ، عزت اور کامیابی کی قربانی پر اس کہاوت کا استعمال کیا جانا مناسب ہوگا حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کا ختم نبوت عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور اہل بیت سے محبت کا اس سے بڑا ثبوت اس سارے واقعہ سے بڑھ کر اور کیا ہوگا؟


میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم نے حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی اور ان کے اعمال سے حاصل یونے والے فیوض و برکات کے بارے میں پچھلی تین قسطوں میں پڑھا اور آج اس چوتھے اور آخری حصے میں ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اپ علیہ الرحمہ کی زندگی اتنے بڑے مقام کے حاصل ہونے سے پہلے کیسی تھی اور کس عمل نیک کی وجہ سے انہیں یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا کہ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے خود اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے کہا کہ " جنید سے کہو کہ لوگوں کو واعض و نصیحت کرے کہ ان کے طفیل بروز محشر کئی لوگوں کی ہم بخشش کریں گے " ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خو شخص عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور اللہ رب الکائنات کے حکم کی پیروی کرنے کے عمل میں اپنی زندگی کو گزارتے ہیں تو اللہ تعالی بھی انہیں وہ مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے جو ہر ذی شعور اہل ایمان مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنی زندگی صرف اور صرف اللہ تعالی کی مرضی اور منشاء پر گزاریں اور دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی شمع کو ہمیشہ روشن رکھیں خاندان نبوت پر پہرہ دینے والے بنیں اور اہل بیت سے محبت کا جذبہ ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو پھر کوئی بعید نہیں کہ رب العزت ہمارے اس عمل سے راضی ہوکر ہمیں بھی دنیا و آخرت میں کسی اونچے مقام و مرتبہ پر فائز کردے آمین ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر میری تحریر میں کہیں کوئی جانے انجانے میں غلطی ہوگئی ہو تو معافی کا طلبگار ہوں اللہ تعالی سے دعا کریں کہ اللہ رب العزت مجھے حق بات لکھنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم
صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم

محمد یوسف برکاتی
About the Author: محمد یوسف برکاتی Read More Articles by محمد یوسف برکاتی: 166 Articles with 134182 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.