ملک عزیز پاکستان میں جہاں سیاست،خدمت میں چند ایک کو
چھوڑ کر آپ جدھر بھی دیکھیں گے دھوکے بازاور فراڈیے ہی نظر آئیں گے وہیں
صحافت میں بھی آپ کو تقریباً ہر تنظیم میں فراڈیے،نوسرباز،دیہاڑی دار،پیسہ
بناؤ افراد ہی نظر آئیں گے۔اچھے،پرخلوص،صحافتی اثاثہ،وابستہ علم و
ادب،نامور، کمال حقیقی رائٹرلوگ کم کم ہی دکھائی دیں گے۔ صحافت لالچی،مفاد
پرست،دھوکے باز،نوسرباز لوگوں سے بھری پڑی ہے۔کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں
ہیجس کا جب دل کرتا ہے ایک تنظیم بناتا ہے اورفراڈ شروع کردیتا ہیدراصل
اصلی کی جگہ نقلی لوگوں نے لے لی ہے اور اہل علم و ادب افراد دور دورتک
نہیں ہیں۔ان صحافتی تنظیمات کو دیکھ کر کسی طور نہیں لگتا ہے کہ یہ صحافت
اور صحافیوں کی خدمت کے لیے بنی ہوئی ہیں۔ہر تنظیمات نے اپنی اپنی تنظیمات
میں اپنے بندے بٹھا رکھے ہیں جو صحافت اورلکھاریوں کی خدمات سے زیادہ اپنی
خدمت کررہے ہیں اور ان تمام مذموم مبنی بر انسانیت کا فقدان اقدامات کو
تحفظ فراہم کررہے ہیں جن کا ٹارگٹ یا مشن ان کو ان کے خود ساختہ کرتا
دھرتاؤں سے ملا ہواہوتا ہے۔ان تنظیمات کی خاص بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے
مختلف لابیاں بنا رکھی ہیں جو مخصوص افراد کو تو ساتھ لے کر چل رہی ہیں مگر
حقیقی صحافتی لوگوں کو یکسر نظر اندازکیے رکھتی ہے اگر یوں کہا جائے کہ
حقیقی علم و ادب افراد کو آگے نہیں آنے دیتی تو زیادہ مناسب بات ہے اور
حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ لابیاں کر بھی کچھ ایساہی رہی ہیں۔آپ اپنے چاروں
اطراف نظر دوڑائیں آپ کو صحافتی تنظیموں میں لکھاری کم، بیوپاری زیادہ نظر
آئیں گے۔اہل علم کم اورمفاد پرست اور گھس بیٹھیے افرادزیادہ بیٹھے نظر آئیں
گے جن کا منتہائے نظر صحافتی خدمت کم اور پیٹ پرچار زیادہ ہوتا ہے۔سارا دن
اسی فکر میں ہی گزرجاتی ہے کہ آج کی دیہاڑی کون سافن اورکون ساجادو
دکھاکرکرنی ہے۔لکھاریوں کو جھوٹے کھیل سچے کرتے دکھاتے،صحیح راستہ دکھانے
کی بجائے غلط راستہ بتاتے،اپنی جیبیں بھرتے نظر آتے ہیں۔اچھی،معیاری،حقیقی
و نمائندہ صحافتی تنظیمات بہت کم کم ہیں اورفراڈ تنظیمات کا ایک جال بچھا
پڑا ہے ان کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اپنی تنظیمات کے پلیٹ
فارم سے مثبت کام ایک بھی نہیں ہے اور بے کارکاموں کی بھرمار ہوئی پڑی
ہے۔بیشتر تنظیمات مختلف پروگرامز،خودساختہ ایوارڈ تقریبات،صحافتی کالم /کہانی
کورسز،کتاب میں کالم لگوائیے کی آڑ میں میدان صحافت میں قدم رکھنے والے نئے
نئے لکھاریوں کے نازک جذبات و احساسات سے کھیلے مسلسل کھلواڑ کئے مختلف
طریقے،حربے،ذریعے اختیار کئے مختلف طرح کے لالچ کی ترغیات دئیے مختلف تحریر
عنوانات دئیے خوب پیسہ بٹور رہے ہیں۔کتاب کے پیسے بھی پالئے اور کتاب پر
منافع بھی خوب حاصل کرلیا۔اخبارکا راستہ بھلا دیا کتاب کا راستہ
بتادیا۔انعام دے کر خود سے انعام اورنام دونوں پالیا۔رہے لکھاری۔۔۔نہ
سمجھنا تھا نہ سمجھ پائے، لکھاری ہوتے تو بات اور گیم سمجھتے، نئے نئے
لکھاری اور سستی شہرت کے پجاری تو ہیں۔فراڈ پبلشرز کے جلومیں بیٹھے ہیں
بجائے اس کے کہ اخبار میں لکھ کر نام ومقام پاتے،کتاب میں یکسر بند ہوئے
پیسہ اور وقت دونوں برابر برباد کئے بیٹھے ہیں۔سوشل میڈیا کا دور ہیذرا
سمجھتے نہیں ہیں۔ایسی تنظیمات کی ادب سے ذرا محبت ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے
پاس بلا کر اپنے پروگرام میں اچھے ڈھنگ اور سلیقے سے ایک کپ چائے پیش نہیں
کرپاتے اور آن لائن کہانی/کالم کورس سیکھئیجیسے خود ساختہ،بے کار،کسی کام
کے نہ ڈرامے مختلف فیسز رکھتے کیا کمال کرتے ہیں۔ڈھنگ سے کوئی کام کرتے
نہیں،سارا دن گلیوں بازاروں کا مٹر گشت کییویلی جیب بھرنے کا کیا خوب سامان
کرتے ہیں ایسے میں اگر کوئی سوچتا ہے کہ وہ بھری جیب والا ہے تو سوچنا ہوگا
کہ وہ یہ کیا کررہا ہے اورکیوں کررہا ہے؟۔کیاعجیب بات ہے کہ علم و ادب سے
اتنی محبت کرنے والے علم و ادب ڈرامہ بھی ڈھنگ سے نہیں چلاپاتے اور نجانے
کن خرچوں کے نام پر فیس کی بابت انتہائی بے شرمانہ طریقے سے آن لائن بتاتے
پھرتے ہیں۔ان کی تحریروں،دعوؤں،اعلانات اور خدمات کو دیکھ کر کسی طور نہیں
لگتا ہے کہ یہ علم و ادب دوست لوگ ہیں بلکہ لگتا ہے کہ کوئی ٹھگ ڈرامہ،پائی
چند منٹ واسطے آیا اے،رچائے بیٹھے ہیں اورجانے ہی والے ہیں۔علم وادب کی
خدمت کی آڑ میں آن لائن کہانی،کالم، تحریر،کورس تو کیا سکھائیں گے،کا توپتہ
نہیں،پیسے بٹورنے کی فلم پوری توجہ کے ساتھ ضرور فلمائے ہوئے ہیں جس میں
ناکامی ذراسی بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس میں کون سا زور لگنا، جو بھی آنا
بیٹھے بٹھائے آنا،آخر صرف آنا ہی ہے،گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں ہے۔ہالی
وڈ،بالی وڈ کو مات دیتے انتہائی چالاک،مکار کمال کھیل رچائے بیٹھے ہیں الغر
ض یہ کہ صحافت میں ٹھگوں کا ایک جہاں آباد ہے اوراس کے شکار نئے نئے
لکھاری،سستی شہرت کے حامل لکھاری لٹ رہے ہیں۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسا
صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے دوسرے کسی اور ملک میں نہیں۔افسوس یہاں
سیاست،خدمت کا بھی کوئی خاص معیار نہیں ہیصحافت ویسے ہی حال و بے حال
ہے۔صحافتی تنظیمیں ٹھگوں،نوسربازوں،شعبدہ بازو ں کے ہاتھوں جکڑی ہوئی ہیں
اورصحافت میں بہتری کا عنصر ذرا سا بھی نہیں ہے۔ یہاں کی صحافت اور صحافتی
تنظیموں میں صحافیوں اور قلمکاروں کیلئے کچھ بھی نہیں رکھا ہے،ہر معاملے پر
صرف سراب،سراب اور سراب کی ہی بات ہے۔
|