ہماری اصل کلچر یہی ہے

ہمارے نوجوان، ہمارے بوڑھے، ہماری عورتیں، ہمارے غیر ممالک میں رہنے والے پاکستانی لوگ، سبھی پاکستان کے بارے بہت سوچتے ہیں۔ ان کے دلوں میں ہر لمحہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنے کا ارمان کا ارمان مچلتا ہے۔غیر ممالک میں بسنے والے جب وہاں لوگوں کو میسر سہولتیں اور وہاں کی آسان زندگی کا تقابل پاکستان کی زندگی سے کرتے ہیں تو بڑے مایوس ہوتے ہیں۔وہاں محنت آپ کو کام پر کرنی پڑتی ہے ، مگر اتنے پیسے مل جاتے ہیں کہ زندگی آسان ہوتی ہے۔یہاں کام پر محنت نہیں ہوتی، اگر سرکاری نوکری ہو تو وہ وظیفہ ہے جو لوگ وصول کرتے اور کام کرنے کا کم سوچتے ہیں۔البتہ زندگی اس قدر الجھی ہوتی ہے کہ سارا دن جوڑ توڑ میں خرچ ہو جاتا ہے۔آمدن کم اور بل اور ان بلوں کی رقوم اتنی زیادہ کہ بس پریشانی ہی پریشانی ۔ کمبختوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس قدر بل جبر ہے ظلم ہے۔بات میں کر رہا تھا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی کہ وہ پاکستان کے معاملات میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست نے اپنے جذبات کی نمائندہ ، مشہور صوفی شاعر حضرت بلہے شاہ کی ایک مشہور نظم سوشل میڈیا پر لکھی کہ
کاغذ اتے اگ نہ رکھیں
پاگل دے سر پگ نہ رکھیں
بلہے شاہ دی من لے سنکھیا
وطن دا راکھا ٹھگ نہ رکھیں

بلہے شاہ ایک صوفی شاعر تھے۔ انہوں نے تو حق اور سچ کی بات ہی کرنی تھی مگر کیا باقی لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب میرے خیال میں نہیں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ حالات کے تقاضے بھی ہوتے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم بنیادی طور پر غلام ذہنیت کے لوگ ہیں۔ ہمیں غلامی پسند ہے۔ ہم جس شخص کو لیڈر مان لیتے ہیں ، اس کی پرستیش کرتے اور اس کی رائے کو سند مانتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ شخص جو ہمارا لیڈر ہے اس کا کوئی کردار نہیں ۔اس میں ہر وہ عیب ہے جو کسی عام آدمی میں ہو تو اس کی قسمت میں پابند سلاسل ہوناضروری ہے۔ لیکن لیڈروں کو کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔وہ برے کردار کا لیڈر ہر وہ کام کر جاتا ہے جو کوئی باشعور کبھی بھی کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اب بلہے شاہ کی کون سنے گا ۔ہمارے بگڑے ہوئے معاشرے کو تو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ڈاکوؤں اور چوروں کے مدد گار ہوں ، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے معاون اور مدد گار ہوں اور ان کے مسائل خوشی سے حل کریں۔ ہم نے ہمیشہ ٹھگوں ہی کو وطن کا راکھا قرار دیا ہیاور اس پر کبھی شرمندہ نہیں ہوئے۔

پچھلی پندرہ بیس صدیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔اس ملک میں جو بھی حملہ آور ہوا ۔ ہم نے اس کی قیادت فوری قبول کی ۔اتفاق کی بات کہ وہ حملہ آور چونکہ مسلمان تھا ، اس لئے ہم نے یہی سمجھا کہ ہم ہی حکمران ہیں ۔یہ مذہبی تعصب ہے جو ہمیں حقیقت جاننے سے روکتا ہے۔ ہم ان سارے مسلمانوں کے دور کو اپنا دور قرار دیتے ہیں ، حالانکہ وہ سارے حملہ آور تھے اور بہت سے تو فقط لوٹ مار کرنے آئے تھے۔ اس حوالے سے مجھے ایک لطیفہ یاد آیا۔ 1947 سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے کہ سڑک پر دو تین کرسچین صفائی کر رہے تھے کہ ایک جلوس کے نعروں کی آواز آئی،’’لے کے رہیں گے آزادی، ہم لے کے رہیں گے آزادی‘‘۔ایک صفائی کرنے والے نے دوسرے کی طرف دیکھا اور ا سے پوچھا کہ بھائی یہ کیا شور مچا رہے ہیں ۔ دوسرے نے سینہ پھلا کر کہا۔ہم سے آزادی مانگ رہے ہیں۔وہ صفائی کرنے والے اپنی ہی طرح کے مفلس تھے جن کی اپنی طرح کوئی حیثیت نہ تھی۔مگر المیہ یہ ہے کہ مذہبی تعصب نے انہیں اتنی غلط فہمی ڈال دی تھی کہ وقتی طور پر وہ خود کو حکمران تصور کرنے لگے تھے۔

پنجاب میں امپورٹڈ رہنماؤں کے علاوہ اگر کسی پنجابی نے ھکومت کی ہے تو وہ فقط رنجیت سنگھ تھا جس نے 1799 سے لے کر 1839 تک چالیس سال پنجاب پر حکومت کی اورجو اصل میں شیر پنجاب کہلاتا تھا ۔رنجیت سنکھ کی ابتدا بھی ڈاکو کے طور پر ہی ہوئی۔ اصل میں اورنگ زیب اور 1664 میں آنے والے سکھوں کے نویں گرو گرو تیغ بہادر جی کی آپس میں ناچاقی کے سبب ، اورنگ زیب نے سکھوں پر لشکر کشی کی جس کے جواب میں گروجی نے سکھوں کے مقابلے کے لئے تیار کیا۔ ان دنوں یہ تصور عام تھا کہ موجود حکومت کے خلاف بغاوت جائز ہے اور عوام کو زندہ رہنے کے لئے لوٹ مار کرنا جائز ہے۔چنانچہ بہے سے لوگ فقظ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے لئے سکھ مت کی طرف مائل ہوئے ۔ اندازہ لگائیں کہ گورو نانک جی اور ان کے بعد کے تمام گرو اتنے لوگوں کو سکھ مت کی طرف مائل نہ کر سکے جتنے گورو تیغ بہادر جی کے دور میں ہوئے۔

سکر گوجرانوالہ کے علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔وہاں کا ایک رہائشی ویسو جٹ بہت غریب آدمی تھا۔ محنت مزدوری کرنے کے باوجود گھر کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔اس کا بیٹا نودھا نے گھر کی غربت سے تنگ آکر ، ماں باپ کی مخالفت کے باوجود سکھ مذہب اختیار کر لیااور لوٹ مار شروع کر دی۔ایک گاؤں میں اس کے مکینوں سے مقابلے میں وہ ہلاک ہو گیا۔نودھا سنگھ کا بیٹا چڑت سنگھ اب اس کا جانشین تھا ۔اس نے لوٹ مار سے گوجرانوالہ، جو اس وقت بدرو خان کہلاتا تھا،اور اس سے ملحقہ بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ایک دن چڑت سنگھ کی بندوق چلاتے ہوئے پھٹ گئی اور چڑت سنگھ ہلاک ہو گیا۔ اب چڑت سنگھ کے بیٹے مہان سنگھ نے اپنے گروہ کی قیادت سنبھالی مگر وہ بیمار ہو کر مر گیا۔ رنجیت سنگھ اسی مہان سنگھ کا بیٹا تھا۔اس نے اس طرح قیادت کا فرض نبھایا کہ پنجاب کا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہو جو اس کہ غارت گری اور لوٹ مار سے محفوظ رہا ہو۔ یہ داستان تھی رنجیت سنگھ کی ۔ یاد رکھیں دولت کسی طریقے سے آئے ، جب وہ آ جاتی ہے تو انسان معزز ہو جاتا ہے۔آج جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں حکمران چور ہے اور فلاں ذڈاکو ہے تو اس کے چور اور ڈاکو ہونے میں کیا قباحت ہے۔ ہمارا اصل کلچر، ہمارا مقدر ہی چوروں اور ڈاکوؤں کی اطاعت قبول کرنا ہے تو اس پر احتجاج کیوں۔ بس جو بھی حکمران ہو ہمیں یہی نعرہ لگانا ہے ’’قدم بڑھاؤ ،ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ یاد رکھیں یہ نعرہ ہماری بقا کا ضامن ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500253 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More