محترم ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ!



السلام علیکم!
امید ہے کہ کم و بیش چار ماہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں گزارنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ کھیلوں کے اس ڈیپارٹمنٹ میں کچھ ملازمین کے کیرئیر کیساتھ کھیل ہی کھیل میں بہت کچھ ہوگیا اور بہت سارے کھیل ہی کھیل میں بڑے بڑے اہم عہدوں پر پہنچ گئے. میرے اس خط کا مقصد آپ کو ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں آگاہ کرنا ہے کیونکہ آپ ماشاء اللہ ٹھہرے ڈی ایم جی، اس ڈیپارٹمنٹ پر پی ایم ایس افسران بھی بھی گزرے ہیں لیکن آپ کے آنے کے بعد اس ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین بڑے شان سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں بھی ڈی ایم جی گروپ کا ڈائریکٹر جنرل آیا ہے.یہ الگ بات کہ ڈی ایم جی اور پی ایم ایس اور پی اے ایس میں کوئی زیادہ فرق نہیں بس عام لوگوں کو انسان سمجھنا شائد ان کی ٹریننگ میں شامل نہیں.میرے اس ابتدائی تلخ الفاظ پر آپ ٹھنڈے دل سے سوچئیے گا ضرور.
جناب عالی!
آپ کی آمد پر ہم نچلے سطح کے ملازمین بہت زیادہ خوش تھے جس طرح جنرل مشرف کے آنے پر ملک بھر کے عوام نے سڑکوں پر ڈھول کی تھاپ پر ناچ ناچ کر اپنا بیڑہ غرق کردیا تھا اسی طرح ہم بھی خوش تھے کہ آپ کے آنے کے بعد کم از کم ایسے ملازمین جو ڈیوٹیاں نہیں کرتے مگر حرام کی تنخواہیں لے رہے ہیں وہ کم از کم ڈیوٹی پر آجائیں گے.لیکن بجائے اس کے جو لوگ ڈیوٹی نہیں کرتے ہم چھوٹے ملازمین بقول خشک لکڑیوں کیساتھ گیلی لکڑیاں بھی جل جاتی ہیں.بہت سارے ڈیلی ویجز ملازمین کو گھر بھیج دیا گیا جن میں بیشتر آٹھ سے دس سال کی ملازمت کرنے والے شامل تھے.اسی طرح مختلف کھیلوں سے وابستہ کوچز کو بھی گھربھیج دیا گیا حالانکہ انہیں گھر بھیجنے کے اقدام سے نہ صرف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی متاثر ہوئے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہوگیا کہ کھیل کے میدان میں آنے کے بعد انہیں مستقبل میں کس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے.اسی باعث کھلاڑیوں کی تعداد کم ہورہی ہیں اور بیشتر بچوں کے والدین بھی باصلاحیت کوچز کی عدم دستیابی سے اپنے بچوں کو بھجوانہیں سکتے. برا ماننے کی ضرورت نہیں لیکن آپ کے پاس ایسے کوچز ہیں جنہیں کوئی کوچ تو کیا گراؤنڈ مین لینے کو بھی تیار نہیں. لیکن برا ہوا چاپلوسی اور خوشامد کا، اسی باعث بہت سارے اعلی گریڈوں تک پہنچ گئے ہیں.
محترم ڈائریکٹر جنرل صاحب!
کچھ ایسی باتیں میں آپ کو اس خط کے ذریعے کہنا چاہوں گا جو آپ کے آس پاس اور جی سر کہنے والے آپ کو نہیں بتاتے. کیونکہ آپ کے آنے کے بعد انہوں نے اس ڈیپارٹمنٹ کے بیشتر ملازمین کو اپنی ذاتی دشمنی نکال دی.کوئی بھی شخص کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت عزت کیلئے کرتا ہے اور عزت کیساتھ کمانا بھی چاہتا ہے آپ کے ارد گرد کچھ لوگ آپ کو غلط معلومات فراہم کرکے ملازمین کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں. ٹھیک ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں فرشتے نہیں لیکن شیطان بھی نہیں ہاں انسان ضرور ہیں اور انسانوں سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں. آپ کو اس خط کے ذریعے میں یہی بتانا چاہتے ہیں کہ کچھ لوگ آپ کو دوسرے ملازمین کی غیر قانونی کاموں کے بارے میں بتاکر اپنے نمبر بناتے ہیں لیکن کیا انہوں نے کبھی اپنی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے.برا ماننے کی ضرورت نہیں لیکن آپ نے ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کردیا ہے لیکن اس ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ لوگ یہی کہتے ہیں کہ جو ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے سامنے جی حضوری کرتے ہیں انہیں سب کچھ تیار ملتا ہے انہیں ڈیلی ویجزمیں شمار نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ بھی ڈیلی ویجز میں شامل ہیں. اگر آپ کو یہ نظر نہیں آتے تو اپنے ارد گرد کے چکر باز لوگوں سے نکلیں اور دیکھ لیں تو پتہ لگ جائیگا کہ آپ کیساتھ کونسا کھیل کھیلا جاہا ہے.
ڈائریکٹر جنرل صاحب!
کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ کوئی آپ پر انگلیاں اٹھائیں بالکل نہیں لیکن آپ کے ارد گرد کچھ لوگ جعلی ٹی اے ڈی اے بل جمع کرواکے پیسے نکالنے کے چکر میں ہیں اسی طرح آپ کو ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ مخاصمت میں کھڑا کردیا گیا ہے، ٹھیک ہے کہ وہاں پر کام نہیں ہورہا اور چل چلاؤ والا کام چلتا رہا ہے لیکن ابھی آپ بھی قانون کے اندر رہ کر کام کریں کیونکہ قانون تو سب کیلئے یکساں ہیں کیا ضم اضلاع میں کسی میدانی علاقے سے تعلق رکھنے والا شخص کوچ بھرتی ہوسکتا ہے، اور کوچ بھی ایسے کھیل پر جس میں سارے پاکستان میں کوئی بھی کوچ کسی بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ یا بورڈ میں نہیں، اور کیا ضم اضلاع کے پراجیکٹ کے ملازمین کی ذمہ دار ضم اضلاع نہیں اگر ہے تو پھر آپ ڈائریکٹر جنرل صاحب! آپ کیوں چند افراد کو آگے لا کر سینیارٹی کے نام پر اس ڈائریکٹریٹ میں ایک نئی قانونی جنگ شروع کروا رہے ہیں کیا گریڈ سولہ کے کسی ملازم کو سرکاری گاڑی دی جاسکتی ہیں.یا یہ قانون صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہی لاگو ہے کہ جو پسندیدہ افسر ہو اس کیلئے بقول بجلی گھر مولاناکے "گیدڑ شیدڑ سب حلال ہیں ".
محترم ڈی جی صاحب!
آپ ڈیپوٹیشن کے خلاف ہیں لیکن آپ کے ہی دور میں اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ایک خاتون افسر کے بھائی جو کہ 1122 میں کمپیوٹر آپریٹر تھے انہیں ڈیپوٹیشن پر ہری پور میں ڈی ایس او تعینات کیا گیا جس پر سابق تعینات ڈی ایس او جو کہ خود بھی کمپیوٹر آپریٹر تھا نے عدالت میں کیس دائر کردیا. اب وہاں کھیلوں کی سرگرمیوں کے بجائے ڈی ایس او عدالت کے چکر لگائیں گے اور اس علاقے کے نوجوان منفی سرگرمیوں میں مشغول ہو جائیں گے جس کی ساری ذمہ داری اس ڈیپارٹمنٹ پر عائد ہوگی. آپ نے ہی اس ڈیپارٹمنٹ میں ایک ریٹائرڈ اہلکار کو فارغ کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا لیکن بعد میں خود ایک ریٹائرڈ اہلکارکو لیکر آئے.چلیں یہ آپ کا استحقاق ہے لیکن اس ملک کے نوجوان کب تک ریٹائرڈ "بابے"افسران کے آگے پیچھے پھریں گے.اور کب تک ڈائریکٹریٹ ڈیپوٹیشن پر چلایا جائیگا.
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ!
ہمیں آپ کے قانون کی عملداری کے حوالے سے باتیں بہت اچھی لگتی ہیں اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن ضم اضلاع کے پانچ ملازمین جس میں صرف چار کو پرانے تاریخوں میں گریڈ سترہ میں پروموٹ کیا جارہا ہے جس کیلئے آج کل بڑی کوششیں کی جارہی ہیں یہ کونسے قانون کے تحت کی جارہی ہیں، حالانکہ اسٹبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ بھی اس پر اعتراض بھی اٹھا رہا ہے کیونکہ جب تک ضم اضلاع کا سپورٹس ڈائریکٹریٹ مکمل طورپر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے انڈر نہیں آتا اس وقت تک آپ بطور ڈائریکٹر جنرل نہ تو کسی کو پروموشن دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور اقدام اٹھا سکتے ہیں.آپ یقینا لائق افسر ہیں لیکن کچھ معاملات میں کانوں کے بالکل کچے ہیں، اگر کوچز کام نہیں کررہے ہیں تو ان سے کام لینے کیلئے احکامات جاری کریں یا کسی ڈیپارٹمنٹ کے مخصوص کھلاڑیوں کو ٹریننگ دے رہے ہیں تو یہ غلط کام ہے جس پر ایکشن لینا ضروری ہے، اگر کسی نے غیر قانونی کام کیا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کریں لیکن آپ خود کم از کم کسی ڈیپارٹمنٹ کے ملازم کو سرکاری ڈیپارٹمنٹ میں اپنی اکیڈمی بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ غیر قانونی ہے.بیک وقت ایک سپورٹس کا ملازم کس طرح دوسرے سرکاری ڈیپارٹمنٹ میں اکیڈمی چلا سکتا ہے.ٹھیک ہے کہ کھیلوں کے مختلف شعبوں میں بڑے بڑے نام ہیں لیکن کوئی بھی ان کے ناموں کے چاٹ چاٹ کر بڑا کھلاڑ ی نہیں بن سکتا، جنہوں نے اپنے وقت میں نام کمائے ہیں بس وہ بہت ہیں اب نئے نوجوانوں کو مواقع دیں کہ وہ کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کریں.
سب سے آخر میں ایک سوال آپ اپنے ارد گرد لوگوں سے پوچھ بھی سکتے ہیں کہ سابقہ فاٹا سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بارہ سائیکلوں کے غائب ہونے کا کیا قصہ ہے.اگر آپ اس معاملے کی تحقیقات کریں گے تو بہت ساری باتیں مزید نکل آئیں گی.جو آپ کے آنکھیں کھول دینگی.
محترمی! جنہوں نے غیر قانونی کام کئے ہیں ان کے خلاف بے شک کارروائیاں کریں لیکن آپ خود اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بے خبر مت بنیں، جو آج کل آپ کے سامنے اپنے مقصد کے حصول کیلئے یعنی پروموشن یا دیگر معاملات میں آگے آنے کیلئے بہت آگے پیچھے ہورہے ہیں یہی اقدامات نہ صرف آپ کیلئے بلکہ ڈیپارٹنمنٹ کیلئے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنیں گے اور پھر ڈیپارٹمنٹ کھیلوں کی پروموشن بھی نہیں کرسکے گا.
شکریہ
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے خیرخواہ
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499468 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More