تبدیلی، من پسند ڈیلی ویجر اور عدالتی سی او سی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک قول ہے کہ دولت اور طاقت ملنے کے بعد انسان کی اصلی حیثیت سامنے آجاتی ہیں،باب العلم قرار دئیے جانیوالے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول کو اگر موجودہ دور میں دیکھا جائے تو واقعی سمجھ آجاتا ہے کہ آج سے کم و بیش چودہ سو پینتالیس برس قبل کہے جانیوالے الفاظ کتنے ٹھوس اور حقیقت پر مبنی ہیں.ایک حدیث اس حوالے سے بھی ہے کہ مومن کے دل میں ایمان اورحسد و کینہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، ایک حضرت علی کا قول اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہمارے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے لیکن اگر اپنے دل کی آنکھیں کھول دیں تو تب.
اس حدیث اور قول سے بلاگ کا آغاز اس لئے کردیا کہ کم و بیش چار ماہ ہوگئے کھیلوں کی صوبائی وزارت میں نئی انتظامیہ آگئی ہے جنہوں نے آتے ہی " تبدیلی " کا آغاز کردیا اور تبدیلی بھی ایسی کہ اپنے سابقہ پیش روکو بخشوا دیا، کہتے ہیں کہایک زمانے میں ایک شخص کفن چور تھا، وہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہہ دیا کہ بیٹا میرے مرنے کے بعد ایسا کام کرنا کہ لوگ مجھے بخش دیں اور مجھے اچھے الفاظ میں یاد کریں، کفن چور والد کے انتقال کے بعد اس کے جواں سال بیٹے نے والد کی وراثت میں ملنے والے کفن چوری کا سلسلہ تو جاری رکھا مگر کفن چوری کے ساتھ ساتھ اس نے مردے کی بے عزتی بھی کرنی شروع کردی اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ جاری رہا تو پھر لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس کفن چور سے تو پرانا والا اچھا تھا کم از کم مردوں کی بے عزتی تو نہیں کرتا تھا، اور پھر لوگوں نے کفن چور کو بخش دیا، بس یہی صورتحال تقریبا اب سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بھی بن گئی ہیں
نئی انتظامیہ کی آتے ہی کچھ لوگوں کو بڑے بڑے عہدے مل گئے ایسے عہدے جس کی حقیقت میں وہ اہل بھی نہیں، نہ ہی قانونی طور پر اور نہ ہی اخلاقی طور پر، لیکن انہوں نے اپنے عہدوں کا استعمال یہاں تک شروع کردیا ہے ہر جگہ "منہ ماری اور اپنے آپ کو " تیس مار خان سمجھنے کی یہ عادت اس سے قبل بھی کچھ لوگوں میں تھی جو وقت گزرنے اور عہدے ختم ہونے کے بعد ختم ہوگئی لیکن اب کچھ نئے لوگوں کو ملنے والے عہدوں نے ان کی حقیقت سب یر عیاں کردی ہیں، کم و بیش تین سو کے قریب ڈیلی ویجز ملازمین جن میں کوچز بھی شامل ہیں فارغ کردئیے گئے، اور یہ کہا گیا کہ فنڈز کی کمی ہے، بالکل ٹھیک ہے کہ فنڈز کی کمی ہے لیکن قانون سب کیلئے یکساں ہونا چاہئیے، کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سوئمنگ پول میں سوئمنگ سکھانے والے ڈیلی ویجز کوچز صرف اس لئے ڈیلی ویجز میں شمار نہیں ہوتے کہ انہیں موجودہ ڈائریکٹر جنرل اور اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پشاور نے اپنے بیٹے کی سوئمنگ کیلئے سابق ڈی جی سپورٹس سے کہلوا کر بھرتی کروایا تھا.کیا یہ لوگ ڈیلی ویجز کوچز نہیں، صرف اس لئے کہ ڈی جی سپورٹس کے گڈ بک میں شامل ہیں اور ان کے بچوں کو کوچنگ کرواتے ہیں اس لئے وہ ڈیلی ویج نہیں، یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بیشتر کوچز کی کہانی ہے، جن کے گھروں کے چولہے اسی تنخواہوں سے چلتے تھے لیکن کم و بیش ڈیڑھ ماہ کی بیروزگاری نے انہیں بدحال کردیا ہے، ڈی جی ٹھہرے، بڑے افسر، ان کیلئے گاڑیاں بھی بہت ہیں اور ان کیلئے بہانے بھی بہت اوران کے آگے پیچھے خوشامدی بھی بہت..
لیکن ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ کام کرنے والے ضم اضلاع کے کوچ کے رشتہ دار کو کس حیثیت میں حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں ڈیلی ویجز کی بنیاد پر ریسپشن پر بٹھا دیا گیا کیا یہ اندھا قانون ہے اور کیا اس معاملے میں کوئی پوچھنے والا بھی ہے کہ نہیں اگر ڈیلی ویجز سب فارغ ہے تو پھر ڈی جی صاحب کے کار خاص کے رشتہ دار کو ڈیلی ویج میں بھرتی کرنے کی کیا تک بنتی ہے.کیا قانون سب کیلئے یکساں نہیں، اگر ڈیلی ویجزسب فارغ ہیں تو پھر مستقل بنیادوں پر ملازم لئے جائیں اور باقاعدہ اشتہارات دیکر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھرتیاں کی جائیں، پھر کم از کم یہ بات حقیقی طور پر کہہ جاسکے گی کہ قانون سب کیلئے یکساں ہے اور ڈیلی ویجزکے معاملے میں پسند و ناپسند کا کوئی معیار نہیں.لیکن اگر یہی سلسلہ جو ابھی شروع کیا گیا ہے جو اس سے قبل تھا یعنی سابق وزیراعلی کے نائی کو ڈیلی ویج میں بھرتی کیا گیا اور یہ چھ ماہ قبل کیا گیا تھا جو اس وقت بھی غلط تھا اور آج اگر موجود ہ انتظامیہ یہ سب کچھ کررہی ہیں تو بھی غلط اقدام ہے.
حقوق اللہ اور حقوق العباد دو مختلف چیزیں ہیں، بھلے سے کوئی بھی شخص بڑا ہی پرہیزگار، متقی، تہجد گزار اور مسجد میں سب سے پہلے نماز پڑھنے والا ہی کیوں نہ ہوں اگر اس کے حقوق العباد کے حوالے سے معاملات ٹھیک نہ ہوں تو پھر یہ سب کچھ نمائشی ہیں، کیوں نمازہر قسم کی برائی سے روکتی ہے اور انسان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا کرتی ہے اور اگر کسی انسان کی نماز اسے برائی سے نہیں روک پاتی تو پھر یہ سب کچھ نمائشی ہے. بقول رحمان بابا کہ " پہ دنیا کے دنیا ھہ شے دہ رحمانہ، بے دنیا سڑے چی دروند شی تول کے سپک شی " اگر بحیثیت افسر، بحیثیت اہلکار، بحیثیت کلاس فور، بحیثیت صحافی، بحیثیت ملازم، بحیثیت کھلاڑی، بحیثیت کوچ، کسی بھی شخص کے مضر اثرات سے اس سے وابستہ لوگ متاثر ہوں تو پھر یہ سب کچھ "دو ٹکے "کا نہیں، اللہ تعالی کی شان ہے کہ وہ اپنے حقوق تو معاف کرسکتا ہے یہ اس کی مرضی اور منشاء ہے لیکن کسی انسان کا حق معاف کرنا اس رب کریم جو خالق کائنات ہے بھی حقوق العباد کے معاملے میں سخت ہے.یہ ایک مختصر سی بات ہے جو لوگوں کیلئے دل میں کینہ رکھنے والے افراد کیلئے ہے، بھلے سے کوئی شخص آسمان تک کیوں نہ پہنچ جائے اس کا اپنا حسد اور کینہ اسے ایک دن ایسی جگہ پر لاکھڑا کرتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی،
واپسی پر یاد آیا کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی نئی انتظامیہ کو کچھ لوگ اس پوزیشن میں لا رہے ہیں کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہوں، دفاتر میں عدالتی کیسز کے معاملوں پر میٹنگز میں یہ کہا جارہا ہے کہ توہین عدالت کو ہم دیکھ لیں گے، اور اس طرح کی مشورے دینے والے وہ لوگ ہیں جو خود غیر قانونی طور پرصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آگئے ہیں کل کلاں اگر توہین عدالت کا کیس لگتا ہے تو پھر عدالت عالیہ کے سامنے کسی بھی ریٹائرڈ بابے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی بلکہ ڈائریکٹریٹ میں اعلی عہدوں پر تعینات لوگ ہی کیسز کو بھگتیں گے کیونکہ اب پٹیشنر بھی ہوشیار ہیں اب عدالتی کیسز میں عہدوں کے بجائے متعلقہ افسران کونام کی ساتھ ہی فریق بنایا جارہا ہے جس سے ڈیپارٹمنٹ سے جانے کے بعد لوگ عدالت میں اپنے کیسز بھگتیں گے
|