لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
انسانوں کو دنیا میں جو مصیبت بھی پیش آتی ہے وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسانوں کے تمام اعمال کا نتیجہ ان پر مسلط نہیں کرتا بلکہ بہت سی باتیں وہ معاف بھی کر دیتا ہے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کو ان کے تمام اعمال کی سزا دینے لگے تو زمین پر ایک کیڑا بھی رینگنے نہ پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں انسانی سوسائٹی میں جن مصائب اور آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ خود ہمارے اعمال میں سے کچھ اعمال کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اس کی طرف سے اسباب سے ہٹ کر ملنے والی سزا کا پہلو بھی شامل ہے۔ اور اگر اسباب کے دائرہ میں دیکھا جائے تو بھی یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ انسانی معاشرہ کو صحیح طور پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں جب ان کی پابندی نہیں ہوگی تو معاشرے کا نظام بگڑ جائے گا۔ اور یہ بگاڑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ اصول و قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کی طرف سے ہوگا۔ جیسا کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی مشینری کو چلانے کے لیے مشینری بنانے والے کے بیان کردہ اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو مشینری کا نظام کس طرح بگڑ جاتا ہے۔ اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ یہ دنیا ضروریات پوری کرنے کی حد تک ہے، خواہشات کا پورا کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ آج تک کسی انسان کی خواہشات اس دنیا میں پوری ہوئی ہیں اور نہ پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تمام انسان ضروریات کے دائرہ میں رہیں گے تو اس دنیا کے موجودہ وسائل سے سب کا گزارہ ہوتا رہے گا، لیکن جونہی کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ توڑ کر خواہشات کی تکمیل کے خیال سے وسائل ذخیرہ کرنا شروع کر دیں گے تو ان چند لوگوں کی یہ ادھوری خواہشات بہت سے لوگوں کی حقیقی ضروریات کا خون کر دیں گی۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد کھلی آنکھوں سے افراد، طبقات، اور اقوام و ممالک کے ہر دائرہ میں کر رہے ہیں۔ دنیا میں انسانی آبادی اور اس کے لیے ضروری وسائل دونوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ کام دو الگ الگ محکموں کا نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان رابطہ کار کے فقدان اور ایک دوسرے کی کارگزاری سے بے خبری کا احتمال ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں جتنے انسان پیدا کیے ہیں ان کی ضروریات کے لیے وسائل بھی اتنے ہی پیدا فرمائے ہیں۔ آبادی اور وسائل میں عدم توازن کا جو شور مچایا جا رہا ہے یہ حقائق کے منافی ہے، اور وسائل کے بیشتر حصوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی اقوام نے اپنے استحصال پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ ورنہ اس وقت بھی دنیا میں جو وسائل موجود ہیں ان کی تقسیم اگر منصفانہ ہو تو موجودہ انسانی آبادی کی ضروریات کے لیے وہ کافی ہیں۔ اصل مسئلہ تقسیم کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وسائل پیدا کر کے امتحان اور آزمائش کے طور پر ان کی تقسیم کا کام انسانی معاشرہ پر چھوڑ دیا ہے ۔ اس تقسیم میں خدائی اصولوں کو نظر انداز کر کے کچھ گروہوں اور طبقات نے جو من مانی شروع کر رکھی ہے یہ سارا فساد اسی کا ہے اور پوری دنیا اسی فساد کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔
|