جب میں نے قرآن کو تھام لیا۔

مجھے یہ کہہ لینے دو!
نہیں! آج ہر غلط سوچ کو ذہن سے نکال کر، ہر بری نیت سے نفس کو آزاد کر کے، ہر برے خیال کو جھٹک کر اور دل کو ہر منفی سوچ سے پاک کر کے۔ نہایت خلوص اور محبت کے ساتھ، عاجزی و انکساری اور شکر گزاری کے احساس کے ساتھ۔ مجھے یہ کہہ لینے دو کہ اس وقت کیا ہوا جب میں نے قرآن کو تھام لیا۔

جب میں نے تھام لیا اس قرآن کو تو اس نے مجھے تھام لیا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں نے تو بس اللّٰہ کی اس رسی کو دو انگلیوں سے پکڑا تھا، مگر اس رسی نے مجھے بے حد مضبوطی سے، ایسی مضبوطی سے جو نرمی لیے ہوئے تھی، مجھے تھام لیا۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی شفیق ماں کا آنچل لگا کرتا ہے، یوں محسوس ہوا جیسے کسی شفیق سے بزرگ کا نرم سا آغوش لگا کرتا ہے، کچھ ایسا احساس ہوا کہ جیسے کسی آنسووں کو روک روک کر خود میں گھٹ گھٹ کر مرنے والے کو کسی نے پیچھے سے، اچانک سے بس ایک دم سے اپنے سینے سے لگا لیا ہو، جذبات یوں ہو گئے کہ جیسے کسی شدید ترین پیاسے کو پانی کا جھرنا انایت کر دیا گیا ہو۔ یہ اس وقت کے احساسات ہیں جب میں نے قڑان کو تھام لیا۔۔۔

یہ دنیا تو گھر ہے نہ آزمائش کا، دکھوں اور پریشانیوں کا، یہ زندگی چیلینج ہے صبر و استقامت کا، کبھی نا کامی کا کبھی فتح یابی کا۔۔۔ جہاں حالات کے اتار چڑہاؤ بھی ہیں، لوگوں کے رویوں کے پیچ و تاب بھی ہیں، کسی خواہش کے چھن جانے کے غم بھی ہیں، کسی اچانک ملنے والی خوشی کے مواقعے بھی ہیں۔ دلوں کے جذبات کی اتھل پتھل بھی ہے، اس کے بار بار ٹوٹ ٹوٹ کر جڑنے اور جڑ جڑ کر ٹوٹنے کی جد و جہد بھی ہے، کسی من چاہی چیز کو پا لینے کے بعد اس کی جدائی کا خوف بھی ہے، کسی تکلیف دہ چیز کے زندگی سے چلے جانے کا انتظار بھی،۔ ان نشیب و فراز میں، ان نا ہموار حالات میں جب میں نے قرآن کو تھام لیا تو پتہ ہے میرے ساتھ کیا ہوا؟

کچھ بھی نہیں! نہ حالات بدلے، نہ لوگوں کی طرف سے تکلیف پہنچانے والی چیزوں میں کچھ کمی واقع ہوئی،نہ حالات یک دم پلٹے اور نہ ہی مجھے کسی نے کسی قسم کا کوئی پروٹوکول دیا مگر پتہ ہے کیا ہوا، کچھ نہ بدل کر بھی سب بدل گیا، کوئی تبدیل نہیں ہوا مگر سب کچھ ہی تو تبدیل ہو گیا کیوں کہ اس قرآن کو تھام لیا تو اس نے مجھے تبدیل کر دیا، چیزیں وہی ہیں، حالات وہی ہیں، لوگ ویسے ہی ہیں اور ان کے رویے بھی جوں کے توں ہیں مگر میرا نظریہ اب وہ نہیں ہے اور یہ سب اس لیے ہے کیوں کہ میں نے قرآن کو تھام لیا۔

دنیا نے مجھے آنسووں کو چھپانہ سکھایا، تو اس قرآن نے مجھے جی بھر کر رولایا۔ پروفیشنل زندگی نے احکامات دیئے کہ دوسروں کے لیے آؤٹ آف دی باکس کام کرو، اپنے آپ کو گھلا دو، ایک وقت آئے گا کہ تمہاری یہ لوگ قدر کریں گے، تو قڑان نے کہا نہیں! تم آج سے بلکہ ابھی سے اپنے لیئے جیو گی، اپنی دنیا ایسے بناؤ گی جیسے قرآن کہے گا، اور تمہاری کامیابی کا دار و مدار لوگوں کی آنکھوں میں تمہیں دیکھ کر پیدا ہونے والے تحسین کے تعثرات نہیں! کلمۂ کُن کا مالک، تمہارا خالق، مالک، مدبر، تمہارا مصور طے کرے گا۔ تم یہ نہ سوچنا کہ اللّٰہ کے بندے خوش نہ ہوئے تو کیا ہو جائے گا؟ تم یہ سوچو لڑکی! کہ اگر اللّٰہ راضی ہو گیا تو کیا کچھ ہو جائے گا! دنیا والے بولے: تمہیں کوئی سلام کا جواب نہ دے آئندہ سلام نہ کرنا۔ قڑان نے کہا نہیں! تم سلام کر کر کے اپنے درجات اللّٰہ کی نگاہ میں بلند ضرور کرنا وہ اللّٰہ اتنے سلام کرنے والے تمہارے لیے پیدا کر دے گا کہ تم جواب دیتے دیتے تھک جاؤ گی مگر تمہارے لیے سلامتی کی دعا کرنے والے نہیں تھکیں گے۔ کچھ افراد نیک و کاری کا عمدہ مظاہرہ کرتے کہنے لگے: جب کوئی ایک تھپڑ مارے نہ تو دوسرا گال بھی آگے کر دو! مگر قڑان نے جلدی سے بتایا اگر کوئی ایک دفعہ تم پر ہاتھ اٹھا دے اس حال میں کہ تم حق پر ہو تو اسے دوسری بار ہاتھ اٹھانے سے تم نے روکنا ہے ورنہ تم اپنے ساتھ ظلم کرو گی۔

مجھے یہ کہہ لینے دو کہ مجھے تکلیف اب بھی ہوتی ہے۔ ماضی کا غم اور مستقبل کا خوف اب بھی ڈراتا ہے۔ نہ کامیاں اب بھی بے حد مایوس کر دیا کرتی ہیں، لوگ ارادے سے یا ارادے کے بغیر مجھے اب بھی رلا دیا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی! مگر ہاں مگر جب سے قرآن کو تھاما ہے، شدید غم اور بے بسی میں اس کی طرف لپکنے میں لطف محسوس کرتی ہوں، جب تکلیف ہوتی ہے، اللّٰہ کے ان کلمات کا قرآن کی قرات کرتے انتظار کرتی ہوں کہ ڈرو نہیں، اللّٰہ تو ساتھ ہے، صبر کرنے والوں کے، احسان کرنے والوں کے، ذکر کرنے والوں اور اس پر توکل کرنے والوں کے۔ یہ آنسؤ جو کبھی میری کمزوری کی علامت تصور کیئے جاتے تھے، آج میری سب سے بڑی طاقت یہی ہیں جو ایسے قیمتی موتی ہیں جن کی قدر مجھے، آپ کو، اس کائنات کو، ارض و سماء کو، اس سارے جہاں کو اور ان میں موجود ہر ہر چیز کو بنانے والا رب کرتا ہے۔ مجھے اب تسلیاں میرا رب دیتا ہے۔

مجھے کہہ لینے دو کہ اب مشکلات کے آنے پر میں گلٹ اور ڈپریشن کا شکار ایک مدت سے زیادہ نہیں ہوتی کہ مجھے قڑان کو تھام کر پتہ چلا کہ یہ سب تو اس زمین کے بچھنے کے ستر ہزار سال قبل میرے لیے لکھ دیا گیا تھا، جب کوئی پیارا رخصت ہو جائے تو قرآن مجھے سمجھاتا ہے کہ اسے تو اس وقت جانا ہی تھا، کسی بہت قریبی سے کوئی دکھ پہنچے تو قرآن دل میں اطمنان ڈالتا ہے دیکھو تم نے غنا مانگا تھا نہ! اب تمہارا رب ان ذرائعوں سے تمہیں اس دنیا سے بے نیاز اور دنیا والوں سے بے پرواہ کر رہا ہے خوش ہو جاؤ۔ کوئی مسلہ درپیش ہوتا ہے تو قرآن کی ایسی آیات سامنے آ جاتی ہیں جو مجھے نہایت محبت سے کہتی ہیں، تم ہی نے تو بخشش اور مغفرت اور حکمت کا سوال کیا تھا اب ان چیلینجز سے ڈر کیوں رہی ہو؟ کیا حکمت نہیں سیکھو گی؟ کیا مغفرت اور رحمت کو اپنے قریب نہیں کرنا؟ جب اپنا ہی کوئی کیا گیا عمل گلٹ میں مبتلا کر دیتا ہے تو یہ قرآن فوراً دل و دماغ کے پردوں پر دستک دیتا ہے: یہ غلطی تمہیں اب اس جیسی مزید غلطیوں سے دیکھنا کیسے بچائے گی اور تم اس قرآن کے نور سے اور اپنے تجربات سے دیکھنا اپنے جیسے کتنوں کو اس جیسی کتنی ہی غلطیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہو۔ گلٹ نہ کرو! نیکی کرو اور اس غلطی کو اپنا استاد بنا لو۔ کوئی زیادتی کر دے اور دل ٹوٹ جائے تو قرآن سکھاتا ہے کہ دیکھو کتنی تکلیف ہوئی نہ؟ اب تم کبھی بھی ایسی نہ بننا تا کہ تم کسی کو ایسی تکلیف میں مبتلا کرو۔ کسی کا جھوٹ سامنے آئے تو یہ نصیحت ملتی ہے کہ خود جھوٹ بولوں گی تو اللّٰہ کو کیسی لگوں گی۔ کسی کا نفاق محسوس ہو تو اپنی فکر لگ جاتی ہے اور کسی کی اچھائی دیکھ کر فوراً اس بے چارے سے مثبت مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔

مجھے بتا نے دو کہ اب جب کسی سے کوئی بھالائی اللّٰہ کے اذن سے ہو جائے تو وہ بھی اپنے لیئے ہوتی ہے کہ دین سکھاتا ہے کہ تم جو بھلائی کرو گے وہ تمہارے ہی لیئے ہے۔ اگر کسی کو معاف کرنا مشکل لگے تو اسلام تربیت کرتا ہے کہ معاف کر دو تا کہ تمہیں کر دیا جائے، کسی کو کچھ بھی دینے سے دل تنگ ہو تو قرآن حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ تم دے کر تو دیکھو! اللّٰہ تمہیں اس سے کئی گنا زیادہ اور عمدہ لوٹائے گا۔ کبھی صبر کرنا مشکل لگے تو قرآن کہتا ہے صبر تو نور ہے۔ کسی مسلے پر پھنس جاؤں تو یہ قرآن ہی انبیاءؑ کے قصے سنا سنا کر حکمت کی باتیں بتاتا ہے اور مایوسیوں کو دھویں کی مانند اڑا دیتا ہے۔ حوصلے پست اور قدم ڈگمگا جائیں تو جنگِ احد و بدر کے سبق آموز واقعات سارے وجود میں بجلیاں سی بھر دیتے ہیں۔ قرآن میں موجود بے شمار احکامات اللّٰہ کی ناراضگی سے بچنے کا راسطہ دکھاتے ہیں۔ اللّٰہ کی تیار کردہ جنتوں کی قرآن میں موجود جھلکیاں بہت کچھ کرنے پر اکساتی ہیں اور جہنم کے تذکرے نفس کو سیدھا بالکل سیدھا رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کسی کو کچھ سمجھانا ہو تو قرآن میرے الفاظ بن جایا کرتا ہے اور کچھ لکھنے کا دل چاہے تو قرآن ہی مجھے عنوان فراہم کر دیا کرتا ہے۔

مجھے یہ فریاد کرنے دو کہ اے میرے رب! جیسے دنیا میں نورِ قرآن دیا، اس نور کو آخرت میں مجھ پر تمام کر دے! جیسے دنیا والوں سے مایوس ہو کر قرآن کی جانب دوڑ لگانے سے بہاریں نصیب ہو جایا کرتی ہیں، اس روز جب سب نفسی نفسی پکاریں گے، اس وقت بھی قرآن ہی کو میرے لیے سفارش کرنے والا اور دو بادلوں کے سائے کے روپ میں میرے ساتھ رکھ دینا۔ یا ربی، یا رحمٰن! جب میری جان حلق میں آ جائے، اس کلام کی عبارتیں میرے ذہن میں اور اس کی تعلیمات میرے عمل میں ہو، میری وراثت قرآن مجید کی تعلیمات ہوں اور میرا علم اتنا وسیع ہو جائے کہ میرے لیے صدقۂ جاریہ ہو۔ یا ربی! یا رحمٰن! میری سانسوں کا دھاگہ جب ٹوٹ جائے تو میرے ہاتھوں میں موجود قرآن بند نہ ہو بلکہ ہزاروں لاکھوں کے ہاتھوں میں آ جائے۔، اے میرے خالق، مالک، مدبر، میرے پروردگار! میری ساری زندگی میں قرآن کی رسی کو ہمیشہ میرے ہاتھوں میں رکھنا اور اس کی تعلیمات کو میرے دل کا نور بنا دینا اور اس میں موجود رہنمائی کو میری شخصیت کا عملی حصہ بنا دینا، اور جب اس دنیا کو چھوڑنے کا وقت آ جائے تو اس قرآن ہی کی تعلیمات کے ذریعے میری مدد فرما دینا۔ اے میرے رب تو میرے لیئے کافی ہے، میں تجھ ہی پر توکل کرتی ہوں، تجھ ہی پر ایمان لاتی ہوں، تجھ ہی سے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور گناہوں کو چھوڑ دینے کا سوال کرتی ہوں، بے شک تیری ہی جانب مجھے جلد لوٹ کر آنا ہے پس تو میرے اس لوٹنے کے عمل کو بھی آسان بنا دینا اور روز آخرت مجھے اپنا دیدار اور اپنی رضا مندی انایت کر دینا۔۔۔۔۔۔

آمین!
 

Bint-e-Murtaza
About the Author: Bint-e-Murtaza Read More Articles by Bint-e-Murtaza: 4 Articles with 2017 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.