خود ساختہ خانہ بدوشی
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
اکیسویں صدی میں دولت مند لوگوں میں زندگی کی تمام سہولیات و نعمتوں کی فراوانی کے باعث اُکتاہٹ کا احساس تیزی سے جنم لینے لگا جس کے باعث انہوں نے شہروں اور آبادی والے علاقوں کو چھوڑ کر برف پوش پہاڑوں و بیابانوں کی جانب ہجرت کرنا شروع کی تاکہ مصنوعی طور پر خانہ بدوشوں والی زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں، ان میں ایک تو ایسے لوگ تھے جن کے پاس عمر کے ابتدائی حصے میں ہی ضرورت سے زائد دولت اکٹھا ہو گئی اور دوسرے وہ تھے جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی ریٹائرمنٹ کے بعد اس نئی طرز کی زندگی کے مزے لینے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔شاید دور سے خانہ بدوشوں کا لائف اسٹائل ان کو پسند آیا جو وہ گھر بیٹھے اپنے ٹی وی پر دیکھتے ہوں گے لیکن ان کو وہ سختیاں اور صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے بنیادی عناصر کا علم ہی نہ تھا جو فطرت کے نظام میں خانہ بدوشوں کو ایک نعمت کے طور پر عطا کئے گئے ہوتے ہیں۔اپنی دولت پہ ناز ہونے کے باعث اس کا دکھاوا شہری زندگی میں ان کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا لہٰذا اس دولت کے ذریعے برف پوش پہاڑوں اور صحراؤں میں اپنے خیموں کو جدید ترین سہولیات و ٹیکنالوجی سے لیس کر لیا تاکہ ان کے بچے ان سے محروم نہ ہوں۔ گویا شہر و آبادی سے دور جاکر اکیلے میں ان لوگوں نے ایک نیا لائف اسٹائل اختیار کیا جو خود ساختہ و مصنوعی خانہ بدوشی کا تھا سوائے سوشل لائف کے ۔کسی بھی معاشرے یا سوشل لائف اسٹائل کو چھوڑنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے بغیر رس کے کوئی پھل۔سُو خشک پھل کو کھانے میں جو کوفت ہوتی ہے اس کا جلد یا بہ دیر احساس ان کو ایک عجیب اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرنے لگا۔ واپس جانے کا راستہ وہ خود بند کر چکے تھے اور جاتے بھی کس منہ سے؟ چنانچہ آس پاس یا چند سو میل کے فاصلے پر اپنے جیسے خانہ بدوشوں سے رابطے شروع کرنے پر مجبور ہوئے تو ایک مرتبہ پھر وہ غیر گنجان گاؤں وجود میں آنے لگے جن سے راہِ فرار انھوں نے اختیار کی تھی۔ دوسر ےوہ لوگ تھے جو اپنی ساری زندگی کی کمائی جمع کر کے ریٹائرڈ لائف سکون سے گذارنے کی تمنّا میں زبردستی خانہ بدوش بنے تھے۔تیسرے درجے کے لوگوں میں اپنی انا پرستی کے باعث اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنی حیثیت کا اظہار کسی پہ سطح پر کر پائیں چنانچہ ان کو تنہائی نے زندہ درگور کر دیا جسے آج کے میڈیا نے ایکسپوز کیا کہ کیسے وہ لوگ ڈیپریشن کا شکار ہوئے اور رفتہ رفتہ اپنی جسمانی و ذہنی قوت کی گراوٹ کے باعث مختلف امراض کو شکار ہوتے گئے اور بالآخر موت کو اسی ویرانی میں گلے لگایا۔
|