صراطِ مستقیم پر کیسے چلیں؟
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
ہمارا جسم خالقِ کائنات نے تخلیق کیا اور اس میں روح بھی اس نے ہی پھونکی ، دونوں کی دنیائیں الگ ہیں اور دائرہ کار بھی۔ ان دونوں کو الگ رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے جو کہ ہے نہایت مشکل ۔دونوں کو آپس میں ملادینے سے دونوں کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جسے ہم انسان کی غیر معمولی نفسیاتی کیفیت "شقاق دماغی Schizophrenia " یا "دوہری شخصیت Split Personality " کہتے ہیں۔ جسم مادی شے ہے جب کہ دماغ میں جنم لینے والے خیالات روحانی۔دماغ سے سوچ کی کمانڈ نکلے بغیر جسم کا کوئی عضو کسی قسم کی حرکت نہیں کر سکتا تو پھر بھلا کیسے ہم دونوں کے عمل کو الگ الگ انفرادی حیثیت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے یہ ماننا پڑے گا کہ دماغ کے دو حصے ہیں ، ایک میں روح پھونکنے والے کی جانب سے خیال آتے ہیں تو دوسرے میں ابلیس کی جانب سے منفی کوششوں کی بھرمار۔انسان اپنے عطا کئے ہوئے اختیار (توفیق) کے ذریعے یہ فیصلہ کر پاتا ہے کہ کونسی کمانڈ جسم کے اعضاء کو عمل کرنے کے لئے بھیجی جائے۔ یہ فیصلہ کرنا کسی صورت بھی مادی و روحانی دنیا کے آپس میں خلط ملط ہونے کا سبب نہیں بنتا۔روحانیت کے بارے میں آنے والے خیالات کے ردعمل کو روحانی دنیا میں ہی استعمال کیا جائے تو خالقِ کائنات کا قرب حاصل ہوتا چلا جاتا ہے جب کہ دنیاوی معاملات کے بارے میں آنے والے خیالات مادی دنیا کے نفع و نقصان کے حصول کا سبب بنتے ہیں۔ روحانی دنیا میں اپنے راہ و رسم بڑھا لینے والے کو عرفِ عام میں پہنچا ہؤا یا مجذوب انسان کہتے ہیں جب کہ دنیاوی معاملات میں کامیابی و ناکامی کا دارو مدار ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس قدر اس میں ملوث ہو تے ہیں۔ خالقِ کائنات کے تمام کام مادیت پر مبنی ہوتے ہیں، کوئی کام روحانی نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو خود روحوں کا منبع ہے۔ مسافر جو اپنی خودی کو فنا کرکے عملاً و قولاً ذکر الہی میں کھو جائے فَنا فِی اللہ کہلاتا ہے جب کہ علّامہ اقبال نے کہا "خودی کو کر بلند اتنا"، گویا خودی کو فنا نہیں ہونے دینا بلکہ روح کی پاکیزگی سے اتنا بلند کرنا ہے کہ مرشد خود پوچھے "بتا تیری رضا کیا ہے؟" جب خالقِ کائنات اپنے بارے میں نہیں سوچتا تو ہمیں کیا حق کہ ہم اس کے بارے میں سوچیں یعنی ہمیں اس سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے مادی دنیا پہ ہی اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنی ہوگی جس کے نتیجہ میں نفع و نقصان ہمارے اختیاری اعمال کے مطابق ہوگا۔ہم اپنے اختیاری اعمال کے مطابق دماغ کا وہ آدھا حصہ استعمال کریں گے جو ابلیس والے آدھے حصے کی سوچ کو رد کرے تو گویا ہم صراطِ مستقیم پر چل رہے ہونگے، ہماری روح کثافتوں سے پاک ہوگی، ضمیر مطمئن ہوگا اور زندگی نہایت آسان ہوگی جس کے نتیجے میں ہم اپنے فرائض ، ذمہ داریاں اور تمام نیک خواہشات باآسانی انجام دیتے چلے جائیں گے۔اپنے اعمال فطرت سے ہم آہنگ کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے۔
|