پاکستان کا تعلیم یافتہ نوجوان ایک ان پڑھ نوجوان سے زیادہ مایوسی کا شکار کیوں نظر آ تا ہے۔ کیا ہماریے تعلیمی ادارے اور ہماری ڈگریاں نیشنل یا انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق نوجوانوں کو آنے والے کل کے چیلنجوں کے لیے تیار نہیں کرپا رہی ہیں؟ یقینا ہر گز نہیں بالکل نہیں اس ہی کی وجہ سے آج کا نوجوان فرسٹریشن ، ڈپریشن ، ٹینشن کا شکار ہے۔ اور اس وقت جس معاشرے میں وہ زندگی گزار رہا ہے اس کے حالات کا اس کی زندگی پر گہرا اثر پڑ رہا ہے، اور جب تک پاکستانی معاشرے میں افراتفری، ہیجان اور ابہام رہے گا ، یہ نوجوان مایوسی سے نہیں نکل پائے گا، اور اس دلدل میں دہنستا ہی چلا جائیگا. دنیا بھر میں اصل قوم کی ترقی اور معاشرے کی بہتری کا دارومدار نوجوانوں پر ہے،
ان ہی نوجوانوں کے لیے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا ہے.
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
پاکستانی معاشرہ میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک ہم اپنے نوجوانوں کو ان کی منزل اور مقصد سے آگاہی نہیں دیں گے. بالخصوص پاکستان کا نوجوان اس وقت پاکستان کی ابتر سیاسی و معاشی صورتحال سے مایوسی کا کھُلم کُھلا اظہار کررہا ہے، جہاں انہیں اس صورتحال میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا ہے ۔ ملک پاکستان کی حالیہ سروے میں بھی یہ چیز نمایاں نظر آتی ہے۔ اس سروے کے مطابق %37 پاکستانی نوجوان ملک چھوڑ کر باہر منتقل ہونا چاہتے ہیں، جن میں 15 سے 24 سال کے نوجوان مردوں کی تعداد %62 ہے۔ گزشتہ دو تین سال سے پوری دنیا میں معیار زندگی بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہے. سوائے افسوس کرنے کہ ہمارے ملک پاکستان کے آئے دن سیاسی و معاشی صورتحال کی فضا ناقابل برداشت حد تک ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں یہ نوجوان ملازمت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، دوسرے پھر یہاں جمہوریت ہو یا آمریت اہل نوجوانوں کی ساتھ زیادتی چاہے وہ تعلیمی میدان میں یا روزگار میں ہر طرف سے اہل افراد کی جگہ نااہل افرادوں کا ٹولہ یا ماما چاچا کی اولادیں براجمان ہیں پھر یہ اہل افراد کیوں ایسے ملک میں رہیں گے، جہاں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا، تاہم پاکستان چھوڑنے کے خواب دیکھنے والے کہتے ہیں کہ معاشی بحرانوں میں گھرے غیر ملک بھی پاکستان سے بہتر ہی ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے برسوں سے نوجوانوں میں ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے کا رجحان زور پکڑتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان بھی ملک میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی حالات سے سخت مایوس ہو رہے ہیں۔ جس تیزی سے پاکستانی نوجوان باہر مُلک جارہا ہے ان کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 2022ء میں سات لاکھ 65 ہزار لوگ پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک میں چلے گئے ہیں ۔ ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین کی بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔ سن 2021ء میں پاکستان چھوڑنے والوں کی تعداد 225000 تھی جبکہ 2020ء میں امیگرینٹس کی تعداد 288000 تھی ۔ 2019ء میں سوا چھ لاکھ پاکستانی باہر گئے ۔ اس کا مطلب واضح کرتا ہے کہ ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کو اپنا مستقبل بہتر نظر نہیں آ رہا ہے. پاکستانی نوجوان سمجھتے ہیں کہ سکون قبر میں نہیں بلکہ یورپ و دیگر ممالک میں ہے۔ ملکی حالات سب کے سامنے ہیں۔
خراب معیشت ، بے روزگاری ، اظہار رائے کی آزادی، شدت پسندی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وغیرہ بھی سب کے سامنے ہے ۔ ہمارے نوجوان جب یہ سارا منظر نامہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو انھیں مستقبل میں بہتری نظر ہوتے ہوئے نہیں آتی ، یوں وہ کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی حال میں حتیٰ کہ جان کی پروا کئے بغیر غیرقانونی طریقے سے بھی یورپ و دیگر ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ افراد اچھی زندگی گزارنے کے خواب ، بہتر مستقبل کی خاطر غیر قانونی طریقے سے خطرناک راستے سے یورپ کا سفر شروع کرتے ہیں ۔حالیہ دنوں میں پاکستان ”روپے کی قدر بری طرح گری ہے، جس سے قوت خرید شدید متاثر ہوئی ، پاکستان میں ورکر وافر مقدار میں میسر ہیں، اس لیے ان کا استحصال ہوتا ہے۔ اگر افراط زر نہ ہو تو کم تنخواہ بھی کافی ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف بیرون ملک معاوضہ ڈالر، یورو یا درھم میں ملتا ہے، جس سے خود بخود وہ کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے. اس وقت حکمرانوں نے اگر ”زراعت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو پاکستان میں روزگار کا مسئلہ مزید سنگین سے سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم تک درآمد کرنا پڑ جاتی ہے۔ اگر زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے تو نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ براہ راست نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کھلیں گے۔ اسی طرح ایک فیکٹری لگنے سے ہزاروں افراد کو روزگار ملتا ہے. ہماری ملکی پالیسیوں اور توانائی کے بحرانوں نے ایسا سازگار ماحول فراہم نہیں کیا، جس میں صنعتی شعبے کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سیٹھ پیسہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں لگانے لگا، جس سے پیسے کی گردش چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور روزگار کے مواقع پیدا نہ ہو سکے۔ ہمیں رئیل سٹیٹ سے صنعتی شعبے کی طرف رخ کرنا ہو گا تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک ثمرات پہنچیں. نوجوانوں کے پاس انرجی اور خواب ہوتے ہیں، وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ملک میں سازگار ماحول نہ ملے تو پھر وہ ایسی ملک کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں بہتر مواقع میسر ہوں روزگار کے بہتر مواقع مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور مضبوط معیشت مستحکم سیاسی حالات کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں کو پاکستان کا سیاسی کلچر کو بہتر کرنا ہو گا تاکہ فیصلہ سازوں کی توانائیاں جوڑ توڑ اور عارضی مفادات کے بجائے مضبوط معیشت کی طرف مرکوز ہوں۔ اس سے نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے، وہ عدم تحفظ کے احساس سے نکل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرائیں گے. اور اپنی توانائیاں اپنے ملک پر نچھاور کریں اس ہی میں ہمارے ملک اور اس کی عوام کی بہتری ہے.
|