موت کا وقت معلوم ہوتا تو۔۔۔
(Syed Musarrat Ali, Karachi)
|
کل میں نے اپنے ایک کزن سے پوچھا کہ چوراسی سال کی عمر کو پہنچنے پر آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟ ان کا جواب تھا کہ اپنے والدین، اپنے بھائی بہن، اپنے بچوں اور اپنے دوستوں کا خیال رکھنے اور ان سے محبت کرنے کے بعد اب میں اپنے آپ سے محبت کرنے لگا ہوں اور اپنا ہی خیال رکھتا ہوں۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں کوئی دنیا کا نقشہ نہیں ہوں اور نہ ہی دنیا میرے کندھوں پر رُکی ہوئی ہے۔میں نے اپنا اصول بنا لیا ہے کہ میں کبھی کسی غریب دوکاندار یا ٹھیلے والے سے بھاؤ تاؤ نہیں کروں گا بلکہ وہ میری خریدی ہوئی شے یا سامان کے جتنے پیسے بتائے گا فوراً دے دونگا ، آخر چند ٹکے زیادہ دے دینے سے میں کونسا غریب ہو جاؤنگا بلکہ اس کی کمائی تھوڑی بہتر ہونے سے اس کے گھر کے حالات بہتر ہو جائیں شاید۔ میں اب ہر ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد ویٹر کو ٹِپ ضرور دیتا ہوں جس سے میرے مالی حالات تو خراب نہیں ہوتے البتّیٰ اس کے تھوڑا بہتر ضرور ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنی عمر یا اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کو اپنی کوئی بھی بات یا کہانی دہرانے پر ان کو ٹوکنا نہیں کیونکہ اس سے ان کی ماضی کی یاد داشت کو بہتر بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔میں اب کسی کو یہ نہیں کہتا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں کیونکہ مجھے یہ احساس ہو گیا ہے کہ سب کو صحیح کرنے کی ذمہ داری میری نہیں۔اب میں کسی کی تعریف کرنے یا کسی کی حوصلہ افزائی کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف اس کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے بلکہ اس سے مجھے بھی راحت محسوس ہوتی ہے۔مجھے اب اپنے کپڑوں پر استری کی پرواہ بالکل نہیں ہوتی کیونکہ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ ظاہری لباس جاذبِ نظر نہیں ہوتا بلکہ باطنی شخصیت متاثر کن ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص میری عزت نہیں کرتا تو میں اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اب میری کتنی قدر ہونی چاہئے۔ میرا مذاق اڑائے جانے پر بھی میں طیش میں نہیں آتا، اس سے میرا بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ میری جذباتی کیفیت دیکھ کر لوگ ٹوکتے ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ انسان ہی تو جذباتی ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے تو میں انسان ہوں۔ میں نے کسی بھی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنانا چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں سے تعلقات بنائے رکھنا زیادہ اہم ہے ورنہ میں دنیا میں اکیلا رہ جاؤنگا۔ میں یہ سوچ کر ہر روز اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہوں کہ شاید یہ میری زندگی کا آخری دن ہو۔ میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے مجھے خوشی محسوس ہو جس کےلئے مجھے اتنا انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی ایسا کسی بھی عمر میں ممکن تھا۔ یہ آخری بات کہنے کے بعد میرے کزن بے حد جذباتی ہو گئے جو کہ میں کبھی نہیں دیکھا اور میں تھوڑ اپریشان بھی ہو گیا ان کی ایسی حالت دیکھ کر۔ ان کی بیگم نے فوراً ملازم کو آواز لگا کر کہا "جلدی سے ان کی آکسیجن لا کر لگاؤ، ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں" میں نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر حالات کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اور کہا " بس چھوڑ دو، سب پیچھے ہٹ جاؤ، کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ، ان کو پہلی مرتبہ اپنے آپ کو ایک کامل انسان محسوس ہؤا ہے ، ان کے جذبات پر پل باندھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کو چھوئی موئی کا پودا بنانے کی ضرورت ہے، ابھی کچھ دیر میں ان کی طبیعت سنبھل جائے گی اور چند منٹ بعد وہ نہایت پر سکوں انداز میں محفل کو گرما رہے تھے۔ان کی قوت ارادی مزید مضبوط ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔جس پر مجھے اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع مل گیا کہ " موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر بڑے بڑے طرم خان ڈھیر ہو جاتے ہیں ، یہ تو ابھی چوراسی سال کے ہی ہوئے ہیں۔ کاش ہمیں ہوش سنبھالتے ہی ایسی کیفیت نصیب ہوجایا کرے تو ہم سب اچھے انسان بن جائیں۔موبائل فون ہاتھ میں آجانے کے بعد کتابیں پڑھنے کا تو دستور ہی نہ رہا لہٰذا بچہ پیدا ہوتے ہی کان میں اذان و تکبیر کے ساتھ اس کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ تمہاری موت کس سال، کس ماہ، کس دن اور کتنے بجےواقع ہو گی تو اسی فکر میں اس کا تما م رویہ ہو ش سنبھالتے ہی وہ ہو گا جو میرے کزن کا چوراسی سال میں ہؤا"۔ محفل میں ایک بڑا قہقہہ لگا اور برخواست ہوئی۔
|